"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں اُن کی، متن ہمارے

سرکاری ادویات بازار میں بیچنے والوں کو نشان عبرت بنادیں گے …شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’سرکاری ہسپتالوں کی ادویات بازارمیں بیچنے والوں کو نشان عبرت بنادیں گے ‘‘ تاہم وہ اسے نشان عبرت ایوارڈہی سمجھیں کیونکہ جن طبقات کو اس سے پہلے نشان عبرت بنانے کی دھمکی دی ہے وہ پہلے سے بھی زیادہ زور وشور سے اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’چند ٹکوں کی خاطر غریب مریضوں کی ادویات فروخت کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ‘‘ البتہ اگر وہ پوری قیمت وصول کرکے ایسا کریں تو اوربات ہے جبکہ ٹکہ تو بنگلہ دیش کا سکہ ہے اور یہاں چلتا ہی نہیں، اس لیے ظاہر ہے کہ یہ لوگ روپے پیسے کی قدروقیمت ہی سے واقف نہیں ہیں؛ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس سلسلے میں انہیں ایک ریفرشر کورس کروایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے ‘‘ بشرطیکہ کارروائی کرنے والے خود اس میں ملوث نہ ہوں کیونکہ جب تک اوپر والوں کو ان کا حصہ نہ دیا جائے ، یہ کاروبار چل ہی نہیں سکتا جیسا کہ ہرمحکمے میں ہورہا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے ۔ پختونخوا حکومت ڈیڑھ دوماہ کی بات ہے …فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’خیبر پختونخواکی حکومت ڈیڑھ دوماہ کی بات ہے ‘‘ جبکہ یہ نیک کام اس سے پہلے بھی سرانجام پاسکتا تھا لیکن خاکسار کچھ ضروری امور کے سلسلے میں وزیراعظم سے مذاکرات میں مشغول ہے اور اکرم درانی کے حلف اٹھانے کے بعد اس نیک کام میں مصروف ہوجائے گا بشرطیکہ ایک آدھ مزید وزارت کے لیے ہاتھ پائوں مارنا نہ پڑ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ صوبہ بدستور ان کے پاس رہا تو پتہ نہیں یہ پاکستان کا حصہ ہوگا بھی یا نہیں ‘‘ اور یہ مبارک الفاظ خاکسار ہی ادا کرسکتا ہے کیونکہ بزرگوں نے یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ وہ پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے، لیکن انہیں اس کا اندازہ نہیں تھا کہ یہاں پر یارلوگوں کی موجیں ہی موجیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’نواز شریف پانچ سال پورے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ‘‘جس کا اندازہ ہماری ترجیحات پر غور اور عمل شروع کرنے ہی سے لگایا جاسکتا ہے اور اگر اس کارخیر میں مزید کارکردگی دکھائیں تو پانچ سال سے اوپر بھی نکال سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔ موجودہ سسٹم کو خطرات لاحق ہیں …رضا ربانی سینٹ میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر رضا ربانی نے کہا ہے کہ ’’موجودہ سسٹم کو خطرات لاحق ہیں ‘‘ اور اگر یہ سسٹم تبدیل ہوگیا تو ہم سیاستدان بے چارے بھوکوں مرجائیں گے بلکہ اس صورت میں کوئی انتخابات کا رخ ہی نہیں کرے گا کیونکہ یہ ایسا ہی ہوگا جیسے سونے کی کان سے نکال کر باہر پھینک دیا جائے ، اگرچہ کچھ رفقائے کار نے اپنی ہڈی اچھی طرح گانٹھ لی ہے اور اس سسٹم کے تبدیل ہونے سے انہیں یا ان کی آنے والی نسلوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن دیگر سیاستدانوں کے مالی حالات بے حد خراب ہوجائیں گے جنہوں نے دوراندیشی سے کوئی کام نہیں لیا اور اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے محروم رہے جبکہ ان کے اکثر ساتھی اس میں ڈبکیاں لگارہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سیاسی جماعتیں متحد ہوجائیں‘‘ اور ظلم ناروا کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ جائیں ورنہ نوبت فاقہ کشی تک پہنچ جائے گی۔ ہم نیک و بدحضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔ آپ اگلے روز سینٹ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔ ریلوے بدحالی کے ذمہ دار افسر ہی نہیں، وزرا کو بھی جیل جانا چاہیے …سعد رفیق وفاقی وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ’’ریلوے کی بدحالی کے ذمہ دار افسر ہی نہیں، وزراکو بھی جیل جانا چاہیے ‘‘ اگر چہ وزرا میں میں بھی شامل ہوں لیکن میری کارگزاری کی مدت ہی بہت تھوڑی ہے، اس لیے ایک آدھ دن کے لیے حوالات کی یاترا ہی کرسکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’چیئرمین نیب کی تقرری کے بعد ریلوے افسروں کے خلاف کرپشن کے تمام کیس اور ریفرنسر نیب کو بھیج دیں گے ‘‘ لیکن چونکہ کئی سیاسی معززین کے خلاف کیسز بھی موجود ہیں، اس لیے چیئرمین نیب کی تقرری میں مشکلات حائل ہیں جن کے دور ہونے کا بظاہر کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ اس سے خواہ مخواہ ایک پینڈورابکس کھل جائے گا جبکہ حکومت کے لیے بھی اس میں کئی خطرات پوشیدہ ہیں ، ورنہ چیئرمین نیب کا تقرر اب تک ہوچکا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ’’حالت نہایت خراب ہونے کے باوجودریلوے کی نجکاری نہیں کی جائے گی ‘‘ کیونکہ اس کے وزیر ریلوے کا کردار بالکل ختم ہوکر رہ جائے گا اور ظاہر ہے کہ وزیر ریلوے یہاں تربوز بیچنے کے لیے منتخب ہوکر نہیں آیا، اگرچہ یہ کامیابی بھی معرض سوال میں پڑی ہوئی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔ بار بار نہیں، اب ایک ہی دفعہ امامت کرائوں گا …طاہرالقادری شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ ’’بار بار نہیں‘ اب ایک ہی دفعہ امامت کرائوں گا ‘‘ بشرطیکہ مقتدی بھاگ نہ کھڑے ہوں کیونکہ دھرنے کے دوران بارش اور سردی سے ان کا جوحشر ہوا تھا، اسے ان کی آئندہ نسلیں بھی یاد رکھیں گی؛ تاہم موسم کا چونکہ آج کل کچھ پتہ نہیں چلتا، اس لیے یہ فریضہ بھی کنٹینر میں سے ہی ادا کروں گا‘ جس دوران موجودہ حکومت کے جائز یا ناجائز ہونے کے بارے میں بھی اپنی قیمتی رائے کااظہار کروں گا جو اس کے رویے کے پیش نظر تبدیل بھی ہوسکتی ہے جیسا کہ سابق حکومت کے بارے میں، ان کے وزرا کے کنٹینر میں حاضر ہونے کے بعد تبدیل ہوگئی تھی کیونکہ بہرحال ع ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں انہوں نے کہا کہ ’’ایک کروڑ کارکن بنارہا ہوں ‘‘ حالانکہ اٹھارہ کے اٹھارہ کروڑ بھی بناسکتا ہوں لیکن کچھ دوسروں کے لیے بھی چھوڑنا چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک روزنامہ سے بات چیت کررہے تھے۔ آج کا مطلع تصویرِ باغ و منظرِ دریا الٹ گیا بیٹھے بٹھائے طاقِ تماشا الٹ گیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں