’’دنیا‘‘ ایک سال کا ہوگیا۔ ہیپی برتھ ڈے! اس اخبار سمیت ہر بامعنی اخبار کی شخصیت اور ذائقہ مختلف ہے، ورنہ اتنے اخبارات کی ضرورت نہیں تھی، ایک ہی اخبار کا فی ہوتا۔ ویسے بھی اخبارات ایک صنعت کی صورت اختیار کر چکے ہیں اور ہر بڑا اخبار اپنی جگہ پر ایک ایمپائر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب اخبار مالکان اتنے خوشحال نہیں ہوا کرتے تھے اور اخبار کی قیمت بالعموم ایک پیسہ ہوا کرتی تھی، حتیٰ کہ لاہور سے نکلنے والے ایک اخبار کا نام ہی ’’پیسہ اخبار‘‘ تھا، بلکہ حالت یہ تھی کہ کسی صاحب کا ایک قیمتی کتا گم ہوگیا اور اس نے اخبار میں اشتہار دیا جس میں کتے کا حلیہ درج کرنے کے علاوہ یہ بھی تھا کہ کتا ڈھونڈنے والے کو 20ہزار روپے انعام دیا جائے گا۔ چنانچہ جس دن اشتہار شائع ہوا وہ صاحب یہ معلوم کرنے کے لیے اخبار کے دفتر گئے کہ کتے کا کوئی سراغ ملا ہے یا نہیں، تو انہوں نے دیکھا کہ سارا دفتر ہی خالی تھا، سوائے ایک چپڑاسی کے۔ انہوں نے چپڑاسی سے پوچھا کہ یہ سب لوگ کہاں ہیں تو اس نے بتایا کہ صبح سے کسی کتے کی تلاش میںنکلے ہوئے ہیں! ہمارے اخبار کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ اسے متعدد شعرائے کرام کا تعاون حاصل ہے جن میں نذیر ناجی ، محمداظہار الحق ،اوریا مقبول جان ،خالد مسعود خان ،ڈاکٹر اختر شمار اور غضنفر ہاشمی اورکاظم جعفری سمیت یہ خاکسار بھی شامل ہے، یعنی اگر یہاں مشاعرہ برپا کرنا مقصود ہو تو خود کفالت کا عالم یہ ہے کہ کسی کو باہر سے بلانے کی ضرورت نہیں ہے البتہ حسن نثار کو مہمان شاعر کے طور پر دعوت دی جاسکتی ہے کہ ع کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی واضح رہے کہ نذیر ناجی اور نذیر احمد ناجی دو الگ الگ شخصیتیں ہیں۔ نذیر ناجی صحافی ہیں تو نذیر احمد ناجی نہ صرف صاحب کتاب شاعر ہیں بلکہ ان کا شمار نئی نظم کے ان بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے جو 60ء کی دہائی میں ایک تحریک کے طور پر منظر عام پر آئے اور جن میں ڈاکٹر انیس ناگی، عباس اطہر ،ڈاکٹر تبسم کاشمیری، ڈاکٹر سعادت سعید ،عبدالرشید اورافتخار جالب وغیرہ شامل تھے۔ نذیر ناجی صاحب کے شعری ذوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان دنوں ہی میں نے ایک بھارتی شاعر اسد بدایونی کے مجموعہ کلام پر ایک کالم لکھا جس میں موصوف کے متعدد اشعار بھی نقل کیے جو ناجی صاحب کو اس قدر پسند آئے کہ مجھ سے وہ کتاب عاریتاً لے لی جو انہوں نے آج تک واپس نہیں کی۔ ایک صاحب لکھتے ہیں کہ کتاب کسی کو ادھار نہیں دینی چاہیے کیونکہ کتاب لے کر کوئی واپس نہیں کرتا، میری لائبریری ایسی کتابوں سے بھری پڑی ہے! اب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ناجی صاحب کی لائبریری میں موجود کتابوں کی ’’نوعیت‘‘ کیا ہے! آجکل اخبارات زیادہ تر کالموں کی وجہ سے پڑھے جاتے ہیں کیونکہ اہم خبریں تو ٹی وی سے بھی معلوم کی جاسکتی ہیں۔ ویسے بھی اخبارات میں کالموں کے علاوہ عموماً اشتہارات ہی ہوتے ہیں جبکہ چند خبریں چھاپنے کا تکلف بھی روا رکھ لیا جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ فرضی ناموں سے کالم لکھا کرتے تھے مثلاً چراغ حسن حسرت سندباد جہازی ، احمد ندیم قاسی عنقا اور صفدر میرؔ زینو کے نام سے لکھا کرتے تھے جبکہ اب کالم نویس کا نہ صرف نام بلکہ کالم کے ساتھ گھڑے جتنی بڑی تصویر بھی چھپتی ہے! تاہم پرانے وقتوں میں بقول شہزاد احمد مرحوم وتیرہ یہ تھا کہ ؎ دس بجے رات کو سو جاتے ہیں خبریں سن کر صبح اٹھتے ہیں تو اخبار طلب کرتے ہیں اگرچہ شاعری اخبارات میں اس زمانے میں بھی شائع کی جاتی تھی جبکہ ایڈیٹروں میں مولانا ظفر علی خان، شورش کاشمیری اور فیض احمد فیض خود بھی شاعر تھے، اسی دور کا واقعہ ہے کہ سمندر میں نہاتے ہوئے ایک صاحب کو پانی کی منہ زور لہر بہا کر دور لے گئی اور وہ ڈوبنے لگے تو ساحل پر کھڑے ایک شخص نے آئو دیکھا نہ تائو، سمندر میں کود پڑا اور بڑی مشکل سے ڈوبنے والے صاحب کو بچا کر لے آیا، بچ نکلنے پر ان صاحب نے شخص مذکورہ کا شکریہ ادا کیا اور اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ وہ فلاں اخبار کے ایڈیٹر ہیں۔ کچھ دنوں بعد ایڈیٹر نے دیکھا کہ وہی شخص اپنی ایک نظم بغرض اشاعت لے کر آگیا۔ نظم کافی ماٹھی تھی، ایڈیٹر اسے پڑھتا جاتا اور بُرا سا منہ بناتا جاتا۔ شخص مذکورہ نے ایڈیٹر کا ارادہ بھانپ لیا اور بولا، جناب ! یہ نظم ہر صورت چھپنی چاہیے! جس پر ایڈیٹر بولا، براہ کرم مجھے وہیں پھینک آئیں جہاں آپ نے مجھے ڈوبنے سے بچایا تھا! اخبار ہر صبح اخبار والا دالان میں پھینک جایا کرتا ہے۔ البتہ بند مکانوں میں وہ اخبار کو دروازے کے نیچے سے کھسکا دیتا ہے۔ اس ضمن میں منقول ہے کہ میاں بیوی ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ میاں کسی کام سے باہر نکلے۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی تو خاتون نے پوچھا کون ہے؟ جس پر اسے بتایا گیا کہ ہوٹل والے ہیں، آپ کے خاوند پر سے ایک بلڈوزر گزر گیا ہے اور اس کی لاش لے کر آئے ہیں، دروازہ کھو ل کر ان کی لاش وصول کرلیں، جس پر خاتون نے جواب دیا، تو پھر نیچے سے ہی کھسکا دیجیے۔ دروازہ کھولنے کی کیا ضرورت ہے! ناجیؔ صاحب کی شاعری کا میں خود گواہ ہوں کہ میری اور ان کی غزلیں مفتی ضیا الحسن کے پرچے روزنامہ ’’خدمت‘‘ ساہیوال میں چھپا کرتی تھیں۔ جس کے ایڈیٹر سید اسرار زیدی ہوا کرتے تھے جبکہ ناجیؔ ان دنوں ساہیوال میں ہی مقیم تھے۔ اس لیے وہ اپنے شاعر ہونے سے اگر چاہیں بھی تو مُکر نہیں سکتے۔ شاعری کے بارے میں اساتذہ کا قول ہے کہ یہ ساری کی ساری مرصّع سازی ہے، یعنی اتنا آسان کام نہیں ہے جتنا نظر آتا ہے۔ میاں عامر محمود بے شک شاعر نہ ہوں گے لیکن اس اخبار کو انہوں نے جس طرح موجودہ مقام پر پہنچا دیا ہے وہ شعر گوئی سے کسی طور کم نہیں ہے اور اب وہ کہہ سکتے ہیں کہ ؎ کودا کوئی یوں چھت پہ تری دھم سے نہ ہوگا جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہوگا آج کا مطلع کاغذ پہ کوئی نقش اتارا ہے زبردست اب دیکھ کے جانا کہ تماشا ہے زبردست