ایک ایک پائی قوم کی امانت سمجھتے ہیں: شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’ہم ایک ایک پائی قوم کی امانت سمجھتے ہیں‘‘ چنانچہ ہم پائیوں کی پوری طرح سے حفاظت کریں گے البتہ روپے وغیرہ جس کی قسمت میں ہوں گے اس کی جیب میں چلے جائیں گے کیونکہ قسمت کے معاملات میں دخل دینے والے ہم کون ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملک کو بحرانوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کردیں گے‘‘ اگرچہ ملک ایک ایسی چیز ہے جو گامزن نہیں ہوتی بلکہ ایک ہی جگہ پر کھڑی رہتی ہے کیونکہ آج تک کسی نے ملک چھوڑ، کسی شہر کو بھی گامزن ہوتے نہیں دیکھا۔ البتہ ہم سیاستدان ضرور گامزن ہوتے رہیں گے اور وہ راہ ترقی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوامی خدمت کے نئے ریکارڈ بنائیں گے‘‘ اگرچہ ریکارڈوں کا زمانہ نہیں رہا اور یہ کام اب ٹیپوں نے شروع کردیا ہے تاہم پرانے اور مشہور گانوں کے لیے ریکارڈ ہی مناسب رہیں گے جن کے لیے گراموفون بھی درآمد کیے جائیں گے کہ گانا ویسے بھی روح کی غذا ہے اور ہم دونوں بھائی یہ غذا اکثر استعمال کرتے رہتے ہیں۔ آپ لاہور میں کارکنوں سے گفتگو کررہے تھے۔ یہاں سب کچھ غلط ہے، سمجھ نہیں آرہی کیا کریں: پرویز خٹک وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ’’سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کریں کیونکہ یہاں سب غلط ہیں‘‘ اور جب تک سمجھ نہیں آتی اس وقت تک کچھ بھی کرنا ممکن نہیں جبکہ سمجھ کے بغیر کرتے ہوئے پہلے ہی کئی کام خراب ہوچکے ہیں، اس لیے صوبے کو نہ صرف ہمارے سمجھ میں آنے کا انتظار کرنا چاہیے بلکہ اس کے لیے دعا بھی کرنی ہوگی کہ ہمارے لیے اب دعا ہی کا مقام آچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’90 روز صرف چور دروازے بند کرتے گزر گئے‘‘ اس کے بعد ڈکیت دروازے اور پھر دہشت گرد دروازے بند کرنے میں لگ جائیں گے، اس لیے آئندہ 180دن تک ہمیں خوامخواہ پریشان نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’تبدیلیاں لانے کی حکمت عملی تیار کرلی ہے۔‘‘ جبکہ حکمت عملی تیار کرنا ہی سب سے بڑی تبدیلی تھی، چنانچہ جو چھوٹی موٹی تبدیلیاں باقی رہ جائیں گی، ان کو ہم نے اللہ میاں پر چھوڑ دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’اصلاح کے لیے تنقید ہوئی تو خوشی ہوگی‘‘ اس لیے بہت سے کام اصلاح طلب ہی چھوڑ دیئے جائیں گے تاکہ ان پر تنقید ہو اور ہم خوش ہوتے رہیں۔ آپ اگلے روز پشاور میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔ عوامی فلاح کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے: گورنر پنجاب گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے کہا ہے کہ ’’عوامی فلاح کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے‘‘ اگرچہ میرا کام صرف دستخط کرنا ہی ہے، تاہم دستخط کرنا بجائے خود عوامی فلاح سے کسی طور کم نہیں ہے جب تک کہ میرے لیے کوئی اور کام مخصوص نہیں کردیا جاتا جبکہ دستخط کرنا بھی کوئی بیلٹ پیپروں پر مہریں لگانا نہیں ہے جیسا کہ حالیہ انتخابات میں ایک حلقے میں جہاں 1300 کل ووٹ تھے، وہاں 7000 بیلٹ پیپروں پر مہریں نہایت آسانی سے لگالی گئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات مشکل کشا ہے اور وہ ہر مشکل کو حل کردیتا ہے۔ انہوں نے کہا ’’مسائل گھمبیر ہیں، حل کرنے میں وقت لگے گا‘‘ بلکہ یہ وزیراعظم صاحب ہی کے الفاظ ہیں جنہیں عین حلف اٹھانے کے بعد اصل اندازہ ہوا، ورنہ انتخابات سے پہلے یہ مسائل ایسے نظر آتے تھے جنہیں چٹکیوں میں حل کیا جاسکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’مشترکہ لائحہ عمل سے ملک دشمن عناصر کو شکست دے سکتے ہیں‘‘ جبکہ اس لائحہ عمل میں ملک دشمن عناصر بھی شریک ہوسکتے ہیں کیونکہ اگر دہشت گردوں سے مذاکرات ہوسکتے ہیں تو ان حضرات سے کیوں نہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں وفود سے گفتگو کررہے تھے۔ بشار الاسد سے ہمدردی نہیں لیکن شام پر حملہ جارحیت ہوگا: فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’بشار الاسد سے ہمدردی نہیں لیکن شام پر حملہ جارحیت ہوگا‘‘ اس لیے اگر حملہ کے بغیر بشارالاسد کا کوئی بندوبست ہوسکتا ہو تو چشم ما روشن، دل ماشاد، جس طرح پرویز خٹک سے ہمیں کوئی ہمدردی نہیں لیکن اگر کسی طرح موصوف کا چھابہ اٹھایا جاسکے تو صوبے کے معاملات سے ہمیں کچھ زیادہ غرض نہیں ہوگی کیونکہ وہ پکے ہوئے پھل کی طرح خود ہی ہماری جھولی میں آگرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’شام پر حملہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی‘‘ جس طرح آج تک ہماری ترجیحات کی خلاف ورزی ہوتی رہی ہے جنہیں پورا پورا بین الاقوامی تحفظ حاصل تھا مگر اب جا کر اکرم درانی صاحب کو وزارت دینے کا اعلان کرنے سے یہ تحفظ مکمل ہوا ہے۔ اگرچہ ابھی تک اس کا زبانی کلامی تاثر ہی دیا جارہا ہے کہ اس پر حکومت پوری سنجیدگی سے غور کررہی ہے اور ہم بقایا ترجیحات پر زور دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔ سندھ کو دیوار سے لگانے کے نتائج خراب نکلیں گے: غوث علی شاہ مسلم لیگ ن سندھ کی صدارت سے مستعفی ہونے والے سید غوث علی شاہ نے کہا ہے کہ ’’سندھ کو دیوار سے لگانے کے نتائج خراب نکلیں گے ‘‘اور مجھے دیوار سے لگانے کا سیدھا سادہ مطلب پورے سندھ ہی کو دیوار سے لگانا ہے جبکہ میری پسند کی دیوار کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت میں بیٹھ کر، باتیں کرنے والے مشرف دور کو یاد کریں‘‘ جب خاکسار کے علاوہ ان کا کوئی پرسان حال ہی نہ تھا اور اب یہ میری پرسش حال کا نام ہی نہیں لے رہے حالانکہ گورنر سندھ کی اسامی کو کسی وقت بھی خالی کرایا جاسکتا تھا جبکہ حکومت بزعم خویش بہت مشکل فیصلے کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’وطن واپس آ کر حقائق بیان کروں گا‘‘ جبکہ فی الحال تو صرف افسانہ نگاری کررہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’سندھ کے کارکنوں اور رہنمائوں کی پارٹی کے لیے بڑی قربانیاں ہیں‘‘ اور اگرچہ مجھے استعفیٰ واپس لینے کے لیے کہا جائے گا لیکن کچھ لیے دیئے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کس طرح کیا جاسکتا ہے جبکہ حکومت کے پاس دینے کے لیے ہر وقت بہت کچھ ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز ٹیلیفون پر ایک روزنامہ سے گفتگو کررہے تھے۔ آج کا مقطع ظفرؔ کی خاک میں ہے کس کی حسرتِ تعمیر خیال و خواب میں کس نے یہ گھر بنایا تھا