سوئس مقدمات کا آئندہ بھی مقابلہ کروں گا… صدر زرداری صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’سوئس مقدمات کا آئندہ بھی مقابلہ کروں گا‘‘ جبکہ نہ حکومت کے ہاتھ کچھ آئے گا نہ سوئس عدالت کے، اگرچہ یہ مقدمات زائدالمیعاد ہوکر پہلے ہی ختم ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’نواز حکومت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے ‘‘ جس طرح صاحب موصوف نے ہماری حکومت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا تھا اور فرینڈلی اپوزیشن کے طورپر اپنا بھرپور تعاون جاری رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ’’ 15سال سے کارکنوں کو نہیں ملا‘‘ جبکہ گزشتہ پانچ سالوں میں تو بالکل ہی نہیں مل سکا کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی کام ہوسکتا ہے یعنی یا حکومت کرتا یا کارکنوں سے ملاقاتیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں نہیں مانتا کہ الیکشن میں بدترین شکست ہوئی ‘‘ کیونکہ یہ اس سے بھی زیادہ بدترین ہوسکتی تھی۔ آپ اگلے روز عشائیہ اور میڈیا سے خطاب کررہے تھے۔ شہر کو فوج کے حوالے کرنا ابھی دور کی بات ہے… میاں نواز شریف وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’شہر کو فوج کے حوالے کرنا ابھی دور کی بات ہے ‘‘ کیونکہ یہ ہماری ترجیحِ اول نہیں ہے جبکہ سب سے پہلے ترجیحاتِ اول کو نمٹانے کی کوشش کی جائے گی جن کی تعداد اب تک ماشاء اللہ ایک سو ستر تک پہنچ چکی ہے، تاہم، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شہر کو فوج کے حوالے کرنا ہماری ترجیحِ اول کی حیثیت اختیار کرجائے کیونکہ ساری کی ساری ترجیحات اپنی مرضی سے ہی آگے پیچھے ہوتی رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’کراچی میں پولیس پر کسی کو اعتماد نہیں‘‘ اگرچہ پنجاب پولیس پر بھی اعتماد ذرا سوچ سمجھ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سمجھوتوں اور حیلوں بہانوں کا وقت گزر گیا‘‘ کیونکہ اس کے لیے جو وقت مقررتھا وہ اب ختم ہوچکا ہے جس کی تجدید کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’امن تباہ کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے ‘‘ جن کی تیاری میں تو کافی وقت لگے گا اس لیے اگر یہ بازار سے دستیاب ہوجائیں تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے، ہیں جی؟ آپ اگلے روز کراچی میں وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ تین ماہ میں ہماری کارکردگی خود بولے گی …عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’تین ماہ میں ہماری کارکردگی خود بولے گی ‘‘ اس لیے اس کی آواز کان کھول کر سننی پڑے گی کیونکہ ادھر ادھر شور ہی اتنا مچا ہوا ہے کہ شاید اس کی آواز لوگوں کوسنائی ہی نہ دے، لہٰذا سب سے پہلے اس شور کا کوئی نہ کوئی بندوبست کرنا ہوگا کیونکہ پرویز خٹک صاحب جتنی زور سے بول سکتے ہیں ، وہ سب کو معلوم ہے جبکہ سارا کچھ آدمی کی صحت پر ہی منحصر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’تبدیلی آچکی ہے ‘‘ اگرچہ یہ تبدیلی ایسی ہے کہ جس نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے اور کسی کو نظر نہیں آرہی ۔ انہوں نے کہا کہ ’’تھانوں میں کیمرے لگوائیں گے ‘‘ تاکہ ایس ایچ او صاحب دیگر عملہ کے ساتھ فوٹو سیشن کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’تمام جماعتوں نے باریاں لے لی ہیں، اب تحریک انصاف کی باری ہے ‘‘ اس لیے کارکردگی وغیرہ کے تکلف میں پڑنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ آپ اگلے روز پشاور میں مفت ایمرجنسی سروس کا افتتاح کررہے تھے۔ بھتہ مافیا کو آہنی ہاتھوں سے کچل دیں گے …شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’بھتہ مافیا کو آہنی ہاتھوں سے کچل دیں گے ‘‘ جبکہ یہ آہنی ہاتھ فی الحال تو بھائی صاحب کراچی میں دہشت گردی کو کچلنے کے لیے استعمال کررہے ہیں، اس لیے جب یہ وہاں سے فارغ ہوگئے تو یہاں بھتہ خوروں کو کچلنے کے لیے استعمال کیے جائیں گے اس لیے بھتہ خور اگر اس وقت تک خود ہی اس کاروبار سے باز رہیں تو ان کی مہربانی ہوگی کیونکہ اس وقت تک انہیں نرم بلکہ ریشمی ہاتھوں ہی سے کچلنے کی کوشش کی جاسکتی ہے جس کا نتیجہ سب پر ظاہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پولیس افسر خود گشت کریں‘‘ جسے مٹرگشت بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ وہ بھی کسی کی روزی پرلات مارنے پر تیار نہیں ہوں گے جبکہ ان کی اپنی روزی روٹی کا کچھ نہ کچھ تعلق ان حضرات سے بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پولیس کو ہرممکن وسائل فراہم کیے مگر نتائج نہ مل سکے‘‘ اس لیے بہتر یہی ہے کہ انہیں اُنہی کے حال پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس نتائج کی ویسے ہی کمی واقع ہوگئی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پولیس افسروں سے خطاب کررہے تھے۔ نواز شریف نے پہلی دفعہ سیاسی اونر شپ دکھائی ہے …فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’نواز شریف نے پہلی دفعہ سیاسی اونر شپ دکھائی ہے ‘‘ اگرچہ اس کا مطلب یہی ہے کہ انہوں نے پہلے کبھی سیاسی اونر شپ نہیں دکھائی؛ تاہم، یہ سلسلہ اگر انہوں نے شروع کرہی دیا ہے تو اس اونر شپ کا مظاہرہ خاکسار کے حوالے سے بھی کرنا چاہیے کیونکہ ہم تو چند وزارتوں ہی کی اونر شپ کے طلبگار ہیں اور زیادہ لالچ کا مظاہرہ نہیں کررہے کیونکہ فطری طورپر قناعت پسند واقع ہوئے ہیں اور دنیا داری سے قطع تعلق کررکھا ہے کہ یہ چند روزہ ہے اور یہ وزراتیں وغیرہ چھوڑ کر ایک دن راہی ملک عدم ہونا ہے جس کے لیے ہروقت توشۂ آخرت کی فکررہتی ہے البتہ جب تک دنیا میں ہیں توشۂ دنیا کا بھی اہتمام کرنا پڑتا ہے بلکہ ہم تو سیاست بھی عبادت سمجھ کر ہی کرتے ہیں جس کا اجرعاقبت ہی میں ملے گا، تاہم دنیا میں بھی جس قدر ارزانی ہوجائے اس کے لیے اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اپنے ترجمان جان اچکزئی کے ذریعے ایک بیان جاری کررہے تھے۔ آج کا مطلع روٹی کپڑا بھی دے، مکان بھی دے اور، مجھے جان کی امان بھی دے