اپنے صبر کی بدولت کامیابی سے 5 سال مکمل کیے… زرداری صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’اپنے صبر کی بدولت کامیابی سے 5 سال مکمل کیے‘‘ بلکہ حق تو یہ ہے کہ اپنے پیر اعجاز صاحب کی کرامات کی وجہ سے یہ مدت مکمل ہوئی ہے ورنہ جہاں تک صبر کا تعلق ہے تو اس کا امتحان عوام سے لیا گیا جس میں وہ اچھے نمبروں سے پاس ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’سیاسی حملوں پر ردعمل ظاہر نہیں کیا‘‘ کیونکہ ہم سب اپنے اپنے اصل کام میں ہی اس قدر مگن تھے کہ ردعمل پر ضائع کرنے کے لیے وقت ہی نہیں تھا اور نہ ہم اتنے کم عقل تھے کہ فائدے کو چھوڑ کر نقصان کی طرف بھاگتے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان اور اس کے عوام اپنے کشمیری بھائیوں کے حق خودارادیت کے لیے ان کی اخلاقی‘ سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھیں گے‘‘ جس میں حکومت کی اخلاقی حمایت کا عنصر زیادہ ہوگا کیونکہ یہ ماشاء اللہ اخلاقیات ہی سے اس قدر مالا مال ہے کہ اُسے کہیں بھی ارزانی کر سکتی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں کشمیری قیادت کی الوداعی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ فوج کی ڈکشنری میں خوف کا لفظ نہیں… شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’فوج کی ڈکشنری میں خوف کا لفظ نہیں‘‘ بلکہ یہ لفظ ہم سیاستدانوں نے اپنی ڈکشنری کے لیے مخصوص کر رکھا ہے جو انتخابات میں عوام کا سامنا کرنے کی بجائے کسی غیبی امداد پر بھروسہ رکھتے ہیں اور اکثر اس میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’فوج کی صلاحیتوں پر فخر ہے‘‘ لیکن کاش کہ ہمیں اپنی صلاحیتوں پر بھی فخر ہوتا جو باریاں لے لے کر ملک کو اس حالت پر لے آئے ہیں کہ ماسوائے مسائل کے‘ یہاں پر اور کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ ’’صوبے میں جلد بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں گے‘‘ اگرچہ یہ اپنی داڑھی دوسرے کے ہاتھ میں دینے والی بات ہے لیکن دوسرے کا ہاتھ بھی ہمارے ہی کنٹرول میں ہو گا اور ہماری مرضی کے بغیر حرکت ہی نہیں کرے گا‘ اوّل تو اس میں انشاء اللہ کوئی نہ کوئی قانونی رکاوٹ بھی پڑتی رہے گی ورنہ یہ کام اگر ہم نے کرنا ہوتا تو اپنے سابق دور حکومت میں ہی کر کے دکھا دیتے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب اور وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔ آنے والے سال میں ڈرون حملوں کے رُکنے میں پیش رفت ہوگی… سرتاج عزیز وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ’’آنے والے سال میں ڈرون حملوں کے رُکنے میں پیش رفت ہوگی‘‘ لہٰذا موجودہ سال کے دوران ہمیں اس سلسلے میں معذور سمجھا جائے بلکہ آئندہ سال بھی اس کی امید ہی کی جا سکتی ہے کیونکہ یہ حملے امریکہ نے روکنے ہیں‘ ہم نے نہیں‘ حتیٰ کہ اب تو ہمیں ڈرون حملوں کی عادت ہی اتنی پڑ چکی ہے کہ جس دن ڈرون حملہ نہ ہو‘ طبیعت اُداس اُداس لگتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ڈرون حملوں کے سلسلے میں ہم نے اقوام متحدہ سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے‘‘ اور وہ بھی وقت گزاری ہی کے سلسلے میں ہے کیونکہ ہم اپنی نرم طبیعت کے باعث امریکہ کے ساتھ سخت رویہ روا نہیں رکھ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے‘‘ کیونکہ ہم اگر اپنے ملک میں امن قائم نہیں کر سکتے تو کم از کم افغانستان کے لیے امن کی خواہش تو کر سکتے ہیں جس پر ہمارا کچھ خرچ بھی نہیں آتا اور جس پر افغانستان شاید اعتبار بھی نہیں کرتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پینٹنگز کی نمائش کا افتتاح کر رہے تھے۔ ملک نازک موڑ پر ہے‘ اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے… فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’ملک نازک موڑ پر ہے اور اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے‘‘ اگرچہ ملک عزیز روزِ اول ہی سے نازک موڑ پر کھڑا ہے جبکہ نہ یہ موڑ کسی اور طرف کو مُڑتا ہے اور نہ ہی ملک آگے پیچھے ہوتا نظر آتا ہے کیونکہ جس میں ہمارے جیسے اللہ لوک سیاستدانوں کی حق تلفی شروع ہو جائے‘ اُس کا نازک موڑ تو مستقل ہی ہوتا جاتا ہے اور جہاں تک اتحاد و اتفاق کا تعلق ہے تو ہم تو روزِ اول ہی سے حکومت کے ساتھ اتحاد کی قسم کھائے بیٹھے ہیں کیونکہ ہمیں کبھی اپوزیشن میں بیٹھنے کا اتفاق ہی نہیں ہوا‘ بلکہ اگر کبھی اپوزیشن میں ہوں بھی تو ہم اپنے آپ کو حکومت ہی میں سمجھتے ہیں بلکہ حکومت میں ہونے کی نسبت زیادہ فیوض و برکات کے سزاوار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’امریکہ کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرے‘‘ البتہ شام میں اگر بشار الاسد ہی کا ٹیٹوا دبا سکے تو بہت ہے‘ جبکہ فی الحال تو اس کے لیے ہمارے داخلی اور خارجی معاملات میں مداخلت ہی کافی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ مشرف نے بے نظیر کا پوسٹ مارٹم نہیں ہونے دیا… لطیف کھوسہ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل سردار لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ ’’مشرف نے بے نظیر کا پوسٹ مارٹم نہیں ہونے دیا‘‘ البتہ جب ہماری حکومت انہیں الوداعی گارڈ آف آنر پیش کر رہی تھی تو یہ بات اتفاق سے ہمیں یاد ہی نہ رہی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی نے یاد کرائی‘ حالانکہ وقت پر یاد کرانا ہر کسی کا فرض ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آصف زرداری کی 5 سالہ خدمات کو مخالفین بھی سراہنے پر مجبور ہو گئے‘‘ کیونکہ یہ سب کچھ مجبوری کے عالم میں ہی کیا گیا ورنہ ان کے رفقائے کار کی خدمات تو ان سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر تھیں؛ تاہم انہیں سراہنے کی ہمت ابھی تک کسی میں پیدا نہیں ہوئی کیونکہ عزم و ہمت کی ہمارے ہاں ویسے بھی کافی کمی آ چکی ہے اور جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔ آج کا مقطع تمہیں تو رنج نہیں ہونا چاہیے تھا‘ ظفرؔ وہ بیوفا نئے گھر میں اگر بہت خوش ہے