قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں … آصف علی زرداری سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘ کیونکہ نواز شریف نے بھی ہمارا بھرپور ساتھ دیا ، نیز دونوں کے درمیان طے ہوچکا ہے کہ باری باری ملک کی خدمت کرنی ہے اور ملک کے وسائل کے ساتھ بھی پورا پورا انصاف کرنا ہے جبکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ملک کے قیام کا مقصد ہی یہ تھا کہ اسے رفتہ رفتہ اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے جس کی مخلصانہ کوششیں بار بار کی جاتی رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اب اپنے انداز سے سیاست کرکے دکھائوں گا‘‘ حتیٰ کہ لوگ پچھلے دور کو بھول جائیں گے اور کانوں کو انگلیاں لگالگا کر اس کے گن گایا کریں گے کیونکہ اب ان کے پاس رونا اور گانا ہی رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’نئی تاریخ رقم کردی ہے ‘‘ جس میں رقم کا ذکر ماشاء اللہ بار بار آئے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجبوریاں ختم ہوگئی ہیں‘‘ اور اس کے ساتھ ساتھ عوام کی مجبوریاں بھی ختم ہوگئی ہیں اور اب وہ نئے فریب میں آنے والے ہیں۔ آپ اگلے روز بلاول ہائوس لاہور میں خطاب کررہے تھے۔ ملک کو پہاڑ جیسے مسائل درپیش ہیں …شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’ملک کو پہاڑ جیسے مسائل درپیش ہیں ‘‘ اور اس پہاڑ کو سر کرنے کے لیے میں نے خصوصی یونیفارم اور مخصوص جوتے تیار کروالیے ہیں اور بہت جلد اس کی چوٹی پر ن لیگ کا جھنڈا لہرادوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’مسائل کا ہرصورت خاتمہ کرکے دم لیں گے‘‘ اور یہ کام ملک کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کے ساتھ ساتھ ہی سرانجام پا جائے گا جس کا وعدہ انتخابات سے پہلے میں ہرتقریر میں کیا کرتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے کا تہیہ کرلیں تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے ‘‘ جس کے لیے سب سے پہلے اس کھوئے ہوئے مقام کی بازیابی کے لیے اخبارات میں اشتہار گم شدہ شائع کروائے جائیں گے کہ اگر مقام مذکورہ اسے پڑھ کر خود ہی واپس آجائے تو اسے کچھ نہیں کہا جائے گا ، تاہم گھر سے اس طرح بھاگ جانا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملکی مسائل کا حل چند برس میں ضرور نکلے گا‘‘ اور وہ کس طرف سے نکلے گا، اس کے بارے میں سردست کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ آپ اگلے روز لارڈ نذیر کی کتاب کی تقریب رونمائی میں تقریر کررہے تھے۔ دہشت گردی سے نجات کے لیے چار نکات پیش کروں گا …عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ’’دہشت گردی سے نجات کے لیے چار نکات پیش کروں گا‘‘ اول تو یہ مسئلہ میرے ایک نکتہ کی بھی تاب نہیں لاسکے گا، تاہم اگر دہشت گردی سے نجات حاصل نہ ہوئی تو اس کے خلاف دھرنے دے دے کر اس کا ناک میں دم کردیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’دہشت گرد میز پر نہ آئیں تو ان کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے ‘‘ تاہم یہ ضروری ہے کہ مذاکرات کے لیے ان کی پسند کا میز پہلے تیار کروالیا جائے کیونکہ میز پر آنے کا مطلب یہ ہے کہ کرسیوں کا کام بھی میز ہی سے لیاجائے گا اور یہ احتیاط اس لیے بھی ضروری ہے کہ مذاکرات کے بعد کرسیاں چوری بھی ہوسکتی ہیں جس کا تلخ تجربہ خاکسار کو قصور والے جلسے سے ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مذاکرات سے پہلے میری وزیراعظم اور آرمی چیف سے ملاقات کرائی جائے ‘‘ تاکہ مؤخر الذکر سے پوچھ سکوں کہ اسٹیبلشمنٹ نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ کیا ہوا۔ آپ اگلے روز لاہور میں خطاب کررہے تھے۔ آمریت کا دس سالہ گند پی پی نے صاف کیا …چانڈیو پیپلزپارٹی کے دور کے وفاقی وزیر قانون مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ ’’آمریت کا دس سالہ گند پی پی نے صاف کیا ‘‘ اور اب دیکھیں گے کہ پی پی کا ڈالا ہوا پانچ سالہ گند کون مائی کا لال صاف کرتا ہے۔ ویسے بھی چونکہ دونوں بڑی پارٹیوں کے درمیان ہونے والے مفاہمتی معاہدے کے مطابق گڑے مردوں کو نہیں اکھاڑا جائے گا، اس لیے زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ گند بدستور جوانیاں مانتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’زرداری تاریخ بناکر لاہور آئے ہیں ‘‘ جبکہ اس تاریخ سازی میں ان کے ساتھ ساتھ ان کے رفقائے کار نے بھی بھرپور حصہ لیا، اگرچہ زرداری صاحب پہلے بھی اس طرح کی تاریخیں رقم کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اداکاروں نے مذاق اڑایا مگر وہ چلتے رہے ‘‘ کیونکہ اس فن میں وہ خود بھی یدطولیٰ رکھتے ہیں بلکہ بچپن میں ایک فلم میں کام بھی کرچکے ہیں نیز ان کے چلتے رہنے کا ایک راز یہ بھی تھا کہ ان کے کئی ساتھی ان سے بھی زیادہ تیز چل رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ان کے اقدامات ملک کی بہتری کے لیے تھے، جوکہ سٹیل مل، پی آئی اے اور ریلوے وغیرہ کی بے مثال ترقی سے بھی صاف ظاہر ہوتے ہیں۔ آپ اگلے روز بلاول ہائوس میں خطاب کررہے تھے۔ پختونخوا حکومت اپنے کرتوتوں کے سبب خود گرجائے گی… فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’پختونخوا حکومت اپنے کرتوتوں کے سبب خود ہی گر جائے گی ‘‘ جبکہ ہماری سابقہ حکومت سمیت جو حکومت بھی گرتی ہے، اسی وجہ سے گرتی ہے، تاہم خاکسار نے اب اسے گرانے پر توجہ دینا اس لیے ترک کردی تھی کہ اپنی ترجیحات کے سلسلے میں بصورتِ دیگر بہت مصروف ہوچکا ہوں جس کا اگرچہ فی الحال کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے لیکن میں مایوس نہیں ہوں کیونکہ مایوس ہونا ایک سیاستدان کو زیب ہی نہیں دیتا جس کا طرۂ امتیاز ہی یہ ہے کہ ع پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ انہوں نے کہا کہ ’’اوآئی سی خواب غفلت سے بیدار ہوجائے‘‘ جس کی امید ذراکم ہی ہے کیونکہ خواب غفلت چیز ہی کچھ ایسی ہے کہ اس سے بیدار ہونا اگر آسان کام ہوتا تو ہماری حکومت ہی ہوجاتی جو ہمارے معاملے میں گھوڑے بیچ کر سوئی ہوئی ہے، پتا نہیں اتنے گھوڑے اس نے کہاں سے لیے تھے۔ آپ اگلے روز چارسدہ میں میڈیا سے بات چیت کررہے تھے۔ آج کا مطلع رُخ زیبا اِدھر نہیں کرتا چاہتا ہے، مگر نہیں کرتا