پیپلزپارٹی کو ناقابل تسخیر قوت بنائیں گے: زرداری سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’پیپلزپارٹی کو ناقابل تسخیر قوت بنائیں گے‘‘ جو ناقابل تسخیر تو پہلے ہی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ حالیہ انتخابات میں اس کا ہاسا نکل گیا تھا، نیز یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اصل ناقابل تسخیر قوتیں دونوں سابق وزرائے اعظم اور رحمن ملک اور وٹو صاحب تھے جو اب یہ جراثیم پارٹی کے اندر بھی داخل کرکے اسے ناقابل تسخیر بنائیں گے، ویسے بھی اگر ہمارا مقابلہ میاں صاحب ہی کے ساتھ ہے تو وہ ایک شریف آدمی ہیں اور گزشتہ پانچ برسوں میں میرے ہاتھوں مزید شریف ہو کر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملک کی خدمت جاری رکھی جائے گی‘‘ اس لیے ملک کو خبردار رہنا چاہیے تاہم اب یہ خدمت میاں صاحبان کریں گے اور اگر کچھ باقی رہ گیا ہے تو اگلی بار ہم پھر آ کر ساری کسریں نکال دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ناراض ہو کر گھروں میں بیٹھ جانے والے جیالوں کی فہرست مرتب کی جائے‘‘ کیونکہ روٹی‘ کپڑا اور گھر ہم سب کو پہلے ہی دے چکے ہیں بشرطیکہ وہ گھر چھوڑ کر کہیں بھاگ نہ کھڑے ہوئے ہوں۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی کے سینئر رہنمائوں سے ملاقات کررہے تھے۔ معیشت کی بحالی اور توانائی بحران پر سیاست نہیں کریں گے: نوازشریف وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’دہشت گردی، معیشت کی بحالی اور توانائی پر سیاست نہیں کریں گے‘‘ اگرچہ ان کے بعد باقی کچھ بھی نہیں بچتا جس پر سیاست کی جاسکے چنانچہ ایسے باقی ماندہ مسائل کی فہرست مرتب کی جارہی ہے؛ کیونکہ سیاست اور تربوز بیچنے میں بڑا فرق ہے، ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’کراچی میں امن کے لیے تمام جماعتوں سے بات کی ہے‘‘؛ چنانچہ اب وہاں صرف امن قائم ہونا رہ گیا ہے جو کہ آہستہ آہستہ قائم ہو ہی جائے گا کیونکہ اگر اس پر بات ہوگئی ہے تو باقی کام کچھ اتنا زیادہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم اتفاق را ئے سے فیصلے کریں تو مسائل حل ہوں گے‘‘ کیونکہ اگر اتفاق رائے نہیں ہوتا تو ہم بیچارے مسائل حل کریں یا حکومت کریں جبکہ زیادہ تر مسائل تو حل ہونے والے ہیں ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر جمہوریت ڈلیور کرے گی تو مضبوط ہوگی‘‘ اور اگر ڈلیور نہیں کرے گی تو اپنا سر کھائے‘ ورنہ ہم تو ڈلیور کرتے ہی رہیں گے، اگرچہ یہ کو ئی اتنا آسان کام نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ ڈرون حملوں پر امریکہ کو سخت پیغام دیا جائے: عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ’’ڈرون حملوں پر امریکہ کو سخت پیغام دیا جائے‘‘ اگرچہ اس سے اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا؛ بلکہ ہماری صحت پر اس کا الٹا اثر پڑ سکتا ہے جو پہلے ہی اتنی ڈانواںڈول ہے اور پرویز خٹک صاحب کی صحت کا نمونہ پیش کررہی ہے اور یہ سب کچھ ملک میں موجود ناقص دوائوں کا نتیجہ ہے چنانچہ سب سے پہلے حکومت کو اس بارے کچھ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’بیک وقت طالبان سے لڑنا اور مذاکرات کرنا دانشمندی نہیں‘‘ چنانچہ یا تو پہلے لڑائی کرکے دیکھ لی جائے اور پھر مذاکرات یا پہلے مذاکرات اور پھر لڑائی کیونکہ فرق تو دونوں میں سے کسی کا نہیں پڑنے والا۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام کو قائل کرنا ہوگا کہ یہ جنگ ہماری جنگ ہے‘‘ کیونکہ یہ اگر امریکہ کی جنگ ہے بھی تو ہماری ہی ہے جبکہ امریکہ کے جذبات کا بھی ہمیں خیال رکھنا ہوگا جیسا کہ ہم آج تک رکھتے چلے آئے ہیں، البتہ اس کے خلاف گاہے گاہے بیان دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’فوج کو قبائلی علاقوں میں بھیجنا بڑی غلطی تھی‘‘ اگرچہ ہم ماشا اللہ اس سے بھی بڑی غلطیاں کرتے چلے آرہے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اے پی سی سے خطاب کررہے تھے۔ کتابی سلسلہ ’’زیست‘‘ ڈاکٹر انصار شیخ کے کتابی سلسلہ ’’زیست‘‘ کا تازہ شمارہ شائع ہوگیا ہے جس میں حال ہی میں انتقال کر جانے والے ادیب، محقق، نقاد اور صاحبِ طرز نثر نگار رفیق احمد نقش کے لیے مخصوص کیا جانے والا گوشہ خاصے کی چیز ہے۔ اس کے حصۂ غزل میں سے انور شعور کے کچھ شعر آپ سے شیئر کرنا چاہوں گا لیکن اس سے بھی پہلے اس کے دو شعر‘ جو میں یہاں اکثر لوگوں کو سنا چکا ہوں: کبھی وہ آگ سے لگتے ہیں‘ کبھی پانی سے کب سے میں دیکھ رہا ہوں انہیں حیرانی سے آدمی بن کے مرا آدمیوں میں رہنا اک الگ وضع ہے درویشی و سلطانی سے اور اب اس کی تازہ غزلوں میں سے کچھ شعر: مہینوں میں سہی، دونوں کم از کم دیکھ لیتے ہیں ہمیں وہ دیکھ لیتے ہیں، انہیں ہم دیکھ لیتے ہیں شعور اس جھوٹ کے بازار میں کیا مول ہے سچ کا ہم اونچا کر کے سچائی کا پرچم دیکھ لیتے ہیں سیاحت ہے جاری و ساری ہماری چلی جا رہی ہے سواری ہماری ہمیں بھی بہت بیکلی ہے‘ مگر ہم بڑھیں گے جب آئے گی باری ہماری بھلا ناصح محترم کیا کریں گے اگر چھٹ گئی، بادہ خواری ہماری شعور آج سے اپنی اپنی پیئں گے تمہاری تمہاری، ہماری ہماری آہ احمد ہمیش! ممتاز افسانہ نگار، نثری نظم کے بانیوں میں شامل اور نقاد احمد ہمیش بھی اگلے روز طویل علالت کے بعد کراچی کے ایک ہسپتال میں گزر گئے۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’مکھی‘‘ شائع ہوا تو ’’مکھی‘‘ نامی افسانہ بہت مشہور ہوا۔ آپ ایک رسالہ بھی نکالتے تھے، افسوس، صد افسوس! ؎ آدمی کہیں چلے جاتے ہیں باتیں باقی رہ جاتی ہیں آج کا مقطع جو ڈاکوئوں سے ظفرؔ بچ رہیں گے وہ خوش بخت محافظوں کی حفاظت میں مارے جائیں گے