عوامی مسائل پر کسی سیاسی دبائو میں نہیں آئیں گے …وزیراعظم نواز شریف وزیراعظم میاں محمدنواز شریف نے کہا ہے کہ ’’عوامی مسائل پر کسی سیاسی دبائو میں نہیں آئیں گے ‘‘ البتہ غیرسیاسی دبائو کی بات اور ہے جیسا کہ مثلاً آئی ایم ایف کے دبائو پر بجلی روز بروز مہنگی کررہے ہیں جبکہ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ عوام اس چیز کا احساس کریں کہ ایک مہنگی چیز کی قدر کرنی چاہیے جبکہ ایسا ہی معاملہ پٹرول اور گیس وغیرہ کا بھی ہے جس کی اس قدر بے قدری کی جارہی تھی کہ انہیں مہنگے کرتے رہنا ضروری ہوگیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام کے لیے 5سال میں 5لاکھ گھر تعمیر کیے جائیں گے ‘‘ تاکہ وہ روز افزوں مہنگائی سے تنگ آکر اور گھرچھوڑ کر کسی طرف کو منہ کرجائیں۔ ہیں جی؟انہوں نے کہا کہ ’’توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے ٹیم دن رات کام کررہی ہے ‘‘ اور اس چوبیس گھنٹے کام سے ان کی حالت بجلی بحران سے بھی پتلی ہوچکی ہے جسے گاڑھا کرنے کے طریقوں پر نہایت سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے جبکہ میرا تو کام ہی غوروفکر کرنا ہے جس میں دنیا کی بے ثباتی کا موضوع بھی شامل ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں آرمی چیف اور ترک وفد سے ملاقات کررہے تھے۔ اقتدار کی پُرامن منتقلی قائداعظم کے خوابوں کی تعبیر ہے …آصف علی زرداری سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’اقتدار کی پُرامن منتقلی قائداعظم کے خوابوں کی تعبیر ہے ‘‘ جبکہ جو کارنامے ہمارے رفقائے کارگزشتہ پانچ برسوں میں سرانجام دیتے رہے ہیں وہ بھی قائداعظم ہی کے خوابوں کی تعبیر تھی کیونکہ بعض خوابوں کی تعبیر الٹی بھی نکل سکتی ہے، حتیٰ کہ مرحوم کے سب سے بڑے خواب یعنی قیام پاکستان کی تعبیر بھی کافی مشکوک ہوچکی ہے حالانکہ ہم نے اسے یقینی بنانے کی ازحد کوشش کی ہے، علاوہ ازیں اقتدار کی پُرامن منتقلی کے لیے پانچ سال تک اقتدار میں رہنا ضروری تھا جس کے لیے ہم اپنی فرینڈلی اپوزیشن کے تہہ دل سے مشکور ہیں اور جو اس لیے بھی ضروری تھا کہ مذکورہ رفقائے کار کے خوابوں کی بھی صحیح تعبیر نکل سکے جس سے وہ سرخرو ہوئے اور خیر سے میری باعزت رخصتی کا مرحلہ طے ہوا جو بعض فتنہ پرداز حضرات کے نزدیک ایک طعنے اور مذاق کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ’’ہم عہد کرتے ہیں کہ قائد کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے ‘‘ البتہ اس میں ہمارے اپنے اصولوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔ آپ قائداعظم کے مزار پر حاضری دے رہے تھے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینا ہمارا حق ہے…اسحٰق ڈار وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا ہے کہ ’’آئی ایم ایف سے قرضہ لینا ہمارا حق ہے‘‘ کیونکہ قرض لے لے کر ہی اس بدقسمت ملک کو اس نوبت تک لائے ہیں کہ سابقہ قرض ادا کرنے کے لیے بھی قرض لینا پڑا ہے، چنانچہ جو قرضہ ہم نے لیا ہے ، ہمارے بعد آنے والوں کو اسے ادا کرنے کے لیے بھی قرض لینا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’آئی ایم ایف نے ہمیں بھیک نہیں دی‘‘ کیونکہ جب ہم نے اپنا کشکول ہی توڑ دیا تھا تو بھیک کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے چنانچہ پیسے وہ اسی لیے پیسے بینک کے ذریعے ادا کررہا ہے ، اگرچہ بھیک چھوڑ، ہم پر تو صدقہ لینا بھی روا ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’ پاکستان جلد اُبھرتی معیشتوں میں شامل ہوجائے گا ‘‘ اگرچہ کسی بھی غیرفطری طورپر آنے والے ابھار کو سرجری ہی کے ذریعے درست کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت نے اپنے حالیہ بجٹ میں آخری حدتک کمی کردی ہے ‘‘ جبکہ حالیہ دنوں میں وزیراعظم کا سابق صدر کو اور نئے صدر کا صحافیوں وغیرہ کو دیا جانے والا پُرتکلف کھانا اس کفایت شعاری کی بہترین مثال ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں آئی ایم ایف کے وفد سے ملاقات کررہے تھے۔ ملا برادر کی رہائی مصالحت کے لیے مثبت اقدام ہے …فضل الرحمن جمعیت العلمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’ملا برادر کی رہائی مصالحت کے لیے مثبت اقدام ہے ‘‘ جبکہ حکومت کی طرف سے ایک عدد مزید وزارت دینے کا وعدہ کرنا ماشاء اللہ اس سے بھی بڑا مثبت اقدام ہے اور اگر حکومت اس مبارک مشن پر رواں دواں رہی تو اس سے مزید بہتر نتائج حاصل ہوتے رہیں گے، اگرچہ راہ راست پر آنے میں حکومت نے ایک طویل اور صبرآزما انتظار کروایا، تاہم دیر آید درست آید، اور امید ہے کہ حکومت مزید درستی پر بھی رفتہ رفتہ آمادہ ہوجائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ’’ان کوششوں سے بات چیت کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی ‘‘ جبکہ حکومت کی مذکورہ رضامندی سے ہمارے ساتھ بات چیت کو بھی آگے بڑھانے میں مدد ملے گی کیونکہ اصل مذاکرات تو وہ ہوں گے جو حکومت ہمارے ساتھ کرتی رہے گی ورنہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ کامیاب ہوں گے یا نہیں، ہم اپنے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کا حکومت کو مکمل یقین دلاتے ہیں بشرطیکہ اس کا کوئی مثبت نتیجہ بھی نکلتا دکھائی دے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک بیان جاری کررہے تھے۔ ایک غیرمتوقع اور شدید ردعمل کراچی میں ایم کیوایم کے ایک سابق ایم پی اے ندیم ہاشمی کی قتل کے ایک مقدمہ میں گرفتاری سے شہر میں ہنگامے اور ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہوگیا ہے۔ الطاف بھائی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایم کیوایم کے خلاف 92ء جیسا آپریشن شروع کردیا گیا ہے جبکہ یہ آپریشن تمام متعلقہ سیاسی جماعتوں کے متفقہ فیصلے کے مطابق شروع کیا گیا ہے اور جس کی نگرانی براہ راست وزیراعلیٰ سندھ کررہے ہیں۔ ایسے معاملات کو قانون کے راستے کے مطابق چلنے دینا چاہیے کیونکہ کسی ملزم کو اس وقت تک سزا نہیں دی جاسکتی جب تک کہ اس کے خلاف جرم ثابت نہ ہوجائے جبکہ ابھی تو تفتیش ہونی ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ تفتیش میں یہ جرم اس قابل ہوجائے کہ چالان عدالت میں پیش کیا جاسکے، چنانچہ اگر ہرپارٹی کی طرف سے اسی طرز عمل کا مظاہرہ کیا گیا تو یہ سیدھے سیدھے اس آپریشن کی راہ میں روڑے اٹکانے والی بات ہوگی اور یہ طرز عمل خود ایم کیوایم ہی کے خلاف جائے گا۔ اس لیے تحمل سے کام لے کر قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیاجائے۔ آج کا مطلع بہت مصروف ہوں چھوٹا سا کوئی گھر بنانے میں کہیں وہ بھی کسی دل کے بہت اندر بنانے میں