"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں اُن کی‘ متن ہمارے

ملک کو امن کا گہوارہ بنا دیں گے… نوازشریف وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’ملک کو امن کا گہوارہ بنا دیں گے‘‘ تاکہ اس میں جُھولا جُھولتی ہوئی قوم خوابِ خرگوش کے مزے لینے لگے اور اسے یہ پوچھنے کا وقت ہی نہ ملے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے‘‘ جبکہ پہلے صرف مخول شخول سے ہی کام لیا جا رہا تھا بلکہ اب تو ہم نے اس کی جڑ کا بھی سراغ لگا لیا ہے جو سارے فساد کی جڑ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’حالات بہتر کرنے میں جلد کامیاب ہو جائیں گے‘‘ اگرچہ کچھ رفقائے کار اپنے حالات بہتر کرنے میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اہم شاہراہوں سے تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے‘‘ البتہ غیر ا ہم سڑکوں‘ جو شہر کے اندر ہیں اور تجاوزات سے پٹی پڑی ہیں‘ کی خیر ہے کیونکہ وہاں تجاوزات ختم کر کے ہم اپنے ووٹ خراب نہیں کر سکتے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز رائیونڈ میں خطاب اور متعلقہ حکام سے بریفنگ لینے کے بعد صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ حکومت نے وعدے پورے نہ کیے تو دوبارہ فعال ہو جائوں گا… ڈاکٹر قدیر ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا ہے کہ ’’حکومت نے وعدے پورے نہ کیے تو دوبارہ فعال ہو جائوں گا‘‘ اور ملکی سیاست میں پھر اسی طرح تہلکہ مچادوں گا جیسے ماضی قریب میں مچایا تھا اور حکومت نے منت سماجت کر کے مجھ سے پارٹی ختم کرائی تھی اور سیاست ترک کروائی تھی‘ اس لیے حکومت ڈرے اُس وقت سے جب میں دوبارہ فعال ہوجائوں گا اور حکومت لاکھ ترلے کرتی رہے‘ باز نہیں آئوں گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ’’باہر رہ کر بھی حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھیں گے‘‘ اس لیے حکومت خبردار رہے اور اپنی کارکردگی کی رپورٹ ہر ماہ مجھے خود ہی پیش کرتی رہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ن لیگ‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف مینڈیٹ حاصل کر چکی ہیں‘ اس لیے ان کے لیے مشکلات پیدا کرنا نہیں چاہتے‘‘ لیکن اگر ہم مینڈیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو یہ تینوں پارٹیاں ہمارے لیے مشکلات ضرور پیدا کرتیں‘ اسی لیے ہم نے مینڈیٹ حاصل کرنے سے پرہیز کیا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک نیوز ایجنسی سے گفتگو کر رہے تھے۔ ہم مفاہمت کی وجہ سے شکست سے دوچار ہوئے… گیلانی سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ’’ہم نے مفاہمت کی وجہ سے شکست کھائی‘‘ کیونکہ اس کی وجہ سے کام ہی ایسے کرنے پڑ گئے تھے کہ شکست و فتح کا خیال ہی کبھی دل میں نہ آیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’لوگ دلیر حکومت کو پسند کرتے ہیں‘‘ مثلاً جس دلیری اور جانفروشی سے ہم نے پانچ سال گزارے ہیں اس کی اور کوئی مثال ہی پیش نہیں کی جا سکتی لیکن ہماری خوشحالی سے حسد کھاتے ہوئے لوگوں نے ہمیں نظرانداز کردیا حالانکہ یہ سب قدرت کی دین ہے اور جلنے والوں کو خود ترقی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن ہمیں بھی شاید کسی کی نظر لگ گئی ہے جو آئے دن میری چوری ہو جاتی ہے‘ حیرت ہے کہ لوگ حق حلال کی کمائی کو بھی معاف نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جب تک میں وزیراعظم رہا‘ پارٹی ایک بھی ضمنی انتخاب نہیں ہاری‘‘ جو کہ محض میرے خاندان کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کی وجہ سے تھی کیونکہ نیک اعمال کیے ہوں تو اُن کا اجر ضرور ملتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ اداروں کی نجکاری ملکی مفاد میں نہیں… کائرہ پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ’’اداروں کی نجکاری ملکی مفاد میں نہیں‘‘ کیونکہ ان اداروں میں لاکھوں افراد جو ہم نے میرٹ پر بھرتی کر رکھے تھے‘ وہ کہاں جائیں گے؟ ہمارے بعد تو کسی کام کے میرٹ پر ہونے کی امید ہی نہیں ہے‘ البتہ ان بھرتیوں کی وجہ سے ان اداروں کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے تو یہ محض ان اداروں کی بدقسمتی ہے‘ اگرچہ زیادہ تر افراد کی ڈگریاں بھی جعلی بتائی جاتی ہیں اور اس موقع پر ہمارے ہی ایک رہنما سردار اسلم رئیسانی کا یہ قولِ فیصل دُہرانا چاہتا ہوں کہ ڈگری ڈگری ہی ہوتی ہے‘ اصلی ہو یا نقلی؛ چنانچہ ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ نجکاری کی صورت میں ان شرفا کی ڈگریاں بھی چیک ہوں گی جو سراسر زیادتی اور گڑے مُردے اکھاڑنے کے مترادف ہے جو کہ مُردوں کے احترام کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’الیکشن میں نعرے لگا کر ووٹ لینے والے قوم سے دھوکہ کر رہے ہیں‘‘ جبکہ طالبان کے خوف سے ہمیں تو نعرے لگانے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ جنگ نظریاتی ہے‘ ذاتی نہیں… فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’پی ٹی آئی کے ساتھ جنگ ذاتی نہیں‘ نظریاتی ہے‘‘ جبکہ ہمارے بارے میں کسی کو بھی کوئی شک شبہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ماشاء اللہ ہماری ضروریات ہی ایسی ہیں‘ ہر الیکشن کے بعد جن میں قدرتی طور پر اضافہ ہو جاتا ہے اور جس میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہوتا اور یہ سب کچھ بھی اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ زیادہ تنومند ہو کر قوم کی خدمت زیادہ جوش و خروش سے کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میرا دامن صاف ہے‘‘ اور ہر روز اسے صابن کے ساتھ مل مل کر دھوتا ہوں جس کے بعد بالکل بے داغ اور سفید نکل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کوئی کرپشن ثابت کر دے تو سیاست چھوڑ دوں گا‘‘ کیونکہ حکومت سے مراعات حاصل کرنا ہمارا حق ہے اور وہ کسی کرپشن کی ذیل میں نہیں آتا‘ اور اس کی کوئی حد بھی مقرر نہیں ہے کیونکہ چھپر پھاڑ کر دینے والے نے اس معاملے میں کوئی حد مقرر نہیں کر رکھی‘ اس لیے ہم حدیں مقرر کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ آپ اگلے روز ٹانک میں ایک جلسہ سے خطاب کر رہے تھے۔ آج کا مطلع دروازہ نکالیں کہاں‘ دیوار ہی نشتے کیا گرمئی بازار ہو‘ بازار ہی نشتے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں