جمہوریت کو بڑا خطرہ عسکریت پسندوں سے ہے: آصف علی زرداری سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ’’ جمہوریت کو بڑا خطرہ عسکریت پسندوں سے ہے‘‘ اگرچہ میں نے اور میری ٹیم نے جمہوریت کو کافی مضبوط کر دیا تھا جو کہ ان کی اپنی مضبوطی سے صاف نظر آرہا ہے اور اگر میعاد ختم نہ ہوتی تو وہ جمہوریت کو اسی طرح مزید مضبوط کردیتے تا آنکہ عسکریت پسند بھی اسے کمزور نہیں کرسکتے تھے۔ خاص طور پر سابق وزرائے اعظم کا تو جمہوریت کو مضبوط کرتے کرتے برا حال ہوگیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام نمٹنے کے لیے تیار رہیں‘‘ اگرچہ ابھی تک تو عوام حالیہ انتخابات میں ہمارے ساتھ ہی نمٹے ہیں لیکن امید ہے کہ اب وہ عسکریت پسندوں کی طرف بھی اپنی توجہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’امید ہے کہ جمہوری قوتیں مضبوط ہوں گی‘‘ کیونکہ میں اور میرے رفقائے کار جو اس قدر مضبوط ہوگئے ہیں تو ہمارے علاوہ جو جمہوری قوتیں ہیں انہیں بھی مضبوط ہوجاناچاہیے، خاص طور پر موجودہ حکومت میں کچھ لوگ ہماری طرح جمہوریت کو مضبوط کرنے کی پُرخلوص کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روزیوم جمہوریت پر اپنا پیغام دے رہے تھے۔ پٹواریوں کو سیدھا اور تھانیداروں کو مسلمان کر دیں گے: عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’ہم پٹواریوں کو سیدھا اور تھانیداروں کو مسلمان کریں گے‘‘ کیونکہ جہاں تک پٹواریوں کا تعلق ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کچھ حضرات کا لقوہ کی وجہ سے منہ وغیرہ ٹیڑھے ہوگئے تھے جنہیں داخل ہسپتال کروا کر ان کا علاج کروایا جائے گا تاکہ ان کا ٹیڑھا پن دور ہوسکے جبکہ جو تھانیدار مرتد ہوچکے ہیں یا انہوں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا ہے انہیں کسی اچھے سے مولوی کے ذریعے مشرف بہ اسلام کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا ’’چھ ماہ میں پختونخوا اور دوسرے صوبوں میں فرق صاف ظاہر ہوجائے گا‘‘ خاص طور پر وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی صحت میاں شہبازشریف اور قائم علی شاہ سے بہت بہتر ہوجائے گی اور وہ ان ہر دو حضرات کو دنگل کے لیے چیلنج بھی کرسکیں گے۔ جبکہ اس سے بڑا فرق اور کیا ہوسکتا ہے چنانچہ اس مقصد کے لیے موصوف نے نہ صرف اپنی خوراک کا خاص خیال رکھنا شروع کردیا بلکہ ڈنڈ بیٹھکیں بھی نکالنا شروع کردی ہیں جس کے خاطر خواہ نتائج نکلنا شروع ہوگئے ہیں۔ آپ اگلے روز ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک جلسے سے خطاب کررہے تھے۔ ریلوے کی نجکاری کے لیے کوئی تجویز زیرغور نہیں: سعد رفیق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ’’ریلوے کی نجکاری کے لیے کوئی تجویز زیر غور نہیں‘‘ کیونکہ غوروفکر کا سارا کام وزیراعظم صاحب نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے چنانچہ دیگر مصروفیات کی وجہ سے وہ اس پر غور نہیں کرسکے ہیں اور جونہی وہ فارغ ہوں گے وہ اس معاملے پر مناسب غور کرنا شروع کر دیں گے، اگرچہ نجکاری ہی اس تباہ شدہ ادارے کا بہترین علاج ہے لیکن پھر توکوئی کام ہی باقی نہیں رہے گا۔ اس لیے میرے لیے کوئی اور وزارت مخصوص کرنا پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’سفارشوں پر ہمدردانہ غور ہو سکتا ہے ‘‘جیسا کہ سابق وزیر ریلوے بلور صاحب کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’سیاحت کے فروغ کے لیے سفاری ٹرین چلانے کی تجویز زیر غور ہے‘‘ اگرچہ مجھے غور کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ پارٹی میں ایک ہی آدمی غور کرسکتا ہے تاہم ہائی کمان کی اجازت حاصل کرکے یہ عیاشی بھی کی جاسکتی ہے۔ آپ اگلے روز ریلوے ہیڈکوارٹرز لاہور میں رپورٹروں کو دیئے گئے ناشتے میں اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے۔ طالبان سے مذاکرات کے لیے حکومت جلد میکنزم کا اعلان کرے گی: فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’طالبان سے مذاکرات کے لیے حکومت جلد میکنزم کا اعلان کرے ‘‘گی اور چونکہ ہماری ترجیحات کے حوالے سے اس نے اپنے میکنزم کاآغاز کر دیا ہے جس کے تحت ایک کے بجائے دو وزارتیں جمعیت کو پیش کی جارہی ہیں، اسی طرح طالبان کے بارے میں بھی وہ ایساہی کرے گی ،اگرچہ ہم سے متعلقہ میکنزم ضرورت سے کچھ زیادہ ہی سست روی کا شکار ہے اور بعض اوقات تو یہ خیال آتا ہے کہ ہمارے معاملے کو کھٹائی میں ڈالنے کے لیے وفاقی کابینہ میں توسیع کا معاملہ التوا کی صورتحال سے دوچار ہے۔ لہٰذا وزیراعظم صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ قومی ترقی کے لیے معاملات کو تیز رفتاری سے نمٹانا چاہیے تاکہ بہتر نتائج برآمد ہوسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’کراچی میں حالات تشویشناک ہیں‘‘ جبکہ حکومتی روییّ کی وجہ سے ہمارے حالات بھی خاصے تشویشناک ہوتے جارہے ہیں، حالانکہ حکومت کو اس سلسلے میں تقریباً روزانہ ہی یاد دہانی بھی کروائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آپریشن مکمل ہونا چاہیے‘‘ جبکہ ہمارے حق میں ہونے والے آپریشن کا جلد تکمیل پذیر ہونا بھی ضروری ہے۔ آپ اگلے روز ڈیرہ اسماعیل خان میں انتخابی جلسوں سے خطاب کررہے تھے اور اب ’’عہد آشوب‘‘ کے عنوان سے عامر سہیل کی یہ تازہ نظم: رات کے سرخ کاسے میں خرطوم ہے/آنسوئوں کے دلاسے میں خرطوم ہے/ معجزہ ہے حلب تری رفتار میں/کوئی چنتا ہے ہونٹوں کی دیوارمیں/ زرد پانی کا پنجہ ہے تشہیر میں/ آگ کو روتے دیکھا ہے کشمیر میں/میں نے تہران سے پوچھنا ہے میاں/ گردنوں سے سنہری تری سردیاں/دشت اور شہر بابل کے بُرقعے پڑھو/ آئو اور چِرتے کابل کے کُرتے پڑھو/ میں نے سینوں پہ کاڑھے ہیں مندر ترے/ ہند دے مجھ کو کاندھے سمندر ترے/پنجگور اور ہنزہ ندی پھیر دے/ پاک لاشوں سے تھی جو صدی پھیر دے/جو کراچی کی گلیوں میں چلتا نہیں/اس کی ایڑی سے چشمہ ابلتا نہیں/ شہ سوار آلِ ہاشم ترا خون ہیں/شام میں میرے ابدال مدفون ہیں/جب فلک بوس مینار تک ڈھے گئے/ مجھ سے بصرہ نے پوچھا کہاں رہ گئے/ دلربا نیل کی بے کسی چوم لوں/ تیری دوشیزہ رُت میں ذرا گھوم لوں/ اے فلسطیں تجھے معبدوں کی اماں/ میں اندھیرے میں سنتا ہوں تیری اذاں/ دیویاں، دیوتا اپنی تسکین کو/ چور نظروں سے دیکھیں اباسین کو/ عشق حسان کا درد بولان کا/پشت پر قہقہ سرخ طوفان کا/ جو بھی عشاق زادہ ہے اس کا دور کا/تذکروں میں لکھے حسن لاہور کا/ گوئٹے، کوئٹے کی پلک سرمگیں/ تیرے بچوں، دریچوں، لبوں سے حسین/ موت کا کانچ درّوں سے میں چن سکوں/ زندگی کی ہنسی دور سے سن سکوں، آج کا مطلع وہی پھر آپ سے بیزار تھے بھلو چنگو وہ آپ کے جو طلبگار تھے بھلو چنگو