کراچی آپریشن کا پہلا مرحلہ ختم ہونے والا ہے …چودھری نثار وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ’’کراچی آپریشن کا پہلا مرحلہ ختم ہونے والا ہے‘‘ جس سے اگرچہ کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ پانچ دس بندے اسی طرح روزانہ مررہے ہیں اور باہر سے اسلحے کی ریل پیل بھی جاری ہے؛ چنانچہ اگلے مرحلے کے نتائج بھی اسی طرح کے ہوں گے لیکن ہم بھی تھکنے والے نہیں ہیں اور مجرموں کے ساتھ یہ آنکھ مچولی کھیلتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجرموں نے بھاگنا شروع کردیا ہے ‘‘ لیکن پولیس وغیرہ ان کے پیچھے نہیں بھاگتے کیونکہ یہ کوئی ریس نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجرموں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی‘‘ ماسوائے وزیرستان کے ، جہاں سے ہم خود بھی پناہ مانگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’دوسرا اور تیسرا مرحلہ سخت ہوگا‘‘ جبکہ پہلا مرحلہ کافی نرم تھا جس کی وجہ سے مجرموں نے مزید سختی سے کام لینا شروع کردیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’مذاکرات میں قومی سلامتی اور خودمختاری کو دائو پر نہیں لگائیں گے ‘‘ جس طرح ڈرون حملوں پر یہ دائو پر نہیں لگائی گئیں۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں خطاب کررہے تھے۔ مجرموں سے این آر او کرکے ہم نے غلطی کی …امین فہیم پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر مخدوم امین فہیم نے کہا ہے کہ ’’مجرموں سے این آراو کرکے ہم نے غلطی کی ‘‘ کیونکہ غلطیاں تو سب لوگ کرتے ہیں جیسا کہ ایک صاحب نے غلطی سے 4کروڑ روپے میرے اکائونٹ میں جمع کرادیے‘ جس غلطی کا احساس اس مہربان کو ہوا اور نہ مجھے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ ساری ہی غلطیاں نقصان دہ نہیں ہوتیں، لیکن افسوس کہ میڈیا میں رپورٹ ہونے کے بعد اس طرح کی غلطی کا ارتکاب پھر کسی نے نہیں کیا، حالانکہ نیکی کا راستہ روکنا نہیں چاہیے، چنانچہ این آر او والی غلطی کا فائدہ زرداری صاحب سمیت متعدد شرفاء کو چھپرپھاڑ کر پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام مہنگائی سے تنگ ہیں تو سڑکوں پر آئیں ‘‘ تاکہ سڑکوں پر انہیں سستی چیزیں فراہم کی جاسکیں جبکہ مذکورہ بالاواقعہ کے بعد میں خود مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہوں اور یہ بیان سڑک پر آکر ہی دے رہا ہوں لیکن اتفاق سے ابھی تک کوئی سستی چیز دستیاب نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت سے مک مکا کاطعنہ درست نہیں‘‘ کیونکہ اس میں طعنے والی کوئی بات ہی نہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کررہے تھے۔ کراچی سمیت ملک بھر میں حکومتی رٹ قائم کریں گے …پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ’’کراچی سمیت ملک بھر میں حکومتی رٹ قائم کریں گے ‘‘ جس کے لیے اخبارات میں اشتہار دیا جارہا ہے کہ یہ رٹ جہاں کہیں بھی ہو، واپس آجائے‘ اسے کچھ نہیں کہا جائے گا کیونکہ حکومت اگر دہشت گردوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکی تو رٹ کو حکومت سے کیا خطرہ ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آپریشن منطقی انجام تک پہنچائیں گے ‘‘ بشرطیکہ منطقی انجام نے اپنے معنی تبدیل نہ کرلیے کیونکہ زبان ہرلمحہ تبدیلی کے عمل سے دوچار رہتی ہے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ منطقی انجام کے معنی غیرمنطقی انجام ہوکر رہ جائیں اور اس طرح یہ آپریشن بھی غیرمنطقی انجام تک ہی پہنچ جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا‘‘ جہاں سے جرم ثابت نہ ہونے کی صورت میں وہ بری ہوتے رہیں گے کیونکہ گواہان استغاثہ ہی ایک ایک کرکے مارے جائیں گے ۔ آپ نے کہا کہ ’’حکومت ملک میں امن وامان قائم کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کرے گی‘‘ آگے یہ امن وامان کی مرضی ہے کہ وہ بحال ہوتا ہے یا نہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک نجی ٹی وی چینل پر بات کررہے تھے۔ جیالوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے …اعتزاز احسن پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر چودھری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ’’جیالے پریشان نہ ہوں ‘‘ یعنی اگر اکا دکا کوئی جیالا باقی رہ گیا ہے تو اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ خود پارٹی نے ساری پریشانیاں اپنے ذمے لے رکھی ہیں کیونکہ پانچ سالہ ہنی مون ختم ہوچکا ہے اور پارٹی کے لیے اب پریشانیاں ہی پریشانیاں باقی رہ گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’زرداری بہت جلد لاہور آنے والے ہیں‘‘ اور، اس جھونپڑی میں قیام کرتے ہوئے جیالوں سے ملاقات کریں گے جو کسی نے محض خداترسی کرتے ہوئے انہیں بناکردی ہے ، اور ، اگر ملک میں ایسے سخی لوگ موجود ہیں تو ان کا دست کرم جیالوں کے سر پر بھی آسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آصف زرداری سیاست کے حوالے سے کسی پابندی کا شکار نہیں ‘‘ جبکہ مقدمات ری اوپن کرنے کے سلسلے میں حکومت کے ساتھ بھی ایک باعزت سمجھوتہ طے پاچکا ہے بشرطیکہ نیب موصوف کے ساتھ کوئی بے تکلفی شروع نہ کردے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’وہ ملک کے اندر ہی رہیں گے ‘‘ اور، اگر کہیں چلے بھی گئے تو انہیں واپس بھی لایا جاسکتا ہے، آپ اگلے روز لاہور ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔ این اے 25میں حکومت جیتی، عوام ہار گئے …فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’این اے 25میں پختونخوا حکومت جیتی اور عوام ہار گئے ‘‘ اور ان کم بختوں کو ہارنا ہی چاہیے تھا کہ کبھی وہ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں اور کبھی غیروں کے ساتھ، اور جو کسی کو خوش حال نہیں دیکھ سکتے کیونکہ سیاسی لیڈر تو کبھی مکمل طورپر خوشحال ہوتا ہی نہیں اور ہل من مزید ہی کی جستجو میں رہتا ہے ، اور، اگر پرمٹ اور الاٹمنٹس وغیرہ نہ ہوئیں تو لیڈر بے چارے مفلوک الحالی کے ہاتھوں کہیں کوچ کرگئے ہوتے، جبکہ حکومت کے ساتھ معاملات بہتر ہونے کی کوئی صورت نکل ہی رہی تھی کہ اوپر سے اپنی سیٹ چھیننے کا بم آگرا، لیکن چونکہ یہ زمانہ ہی بموں اور دھماکوں کا ہے، اس لیے اسے رضائے الٰہی ہی سمجھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پی ٹی آئی کے عمائدین نے حکومت کے ساتھ مل کر خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا‘‘ اگرچہ وہ بدبخت پھر بھی ہمیں ووٹ نہ ڈالتیں۔ آپ اگلے روز لاہور صحافیوں سے بات چیت کررہے تھے۔ آج کا مطلع ساتھ ہمارے آنے بانے وہی تمہارے آنے بانے (’’آنے بانے‘‘ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ٹال مٹول)