"ZIC" (space) message & send to 7575

صاحبِ طرز عامر سہیل کی تازہ غزلیں

آنکھیں ہیں اور رنگِ تماشا ہے مختلف تاب اور حسنِ تاب زلیخا ہے مختلف جو جوگیوں کو راہ بھلائے وہ سادگی جس کو خدا نے چن کے بنایا ہے مختلف رہتی ہے بادلوں کے محلّے میں جس طرح لائی ہے آسماں سے جو نقشہ ہے مختلف اک لائنر نے دنیا کو سکتے میں رکھ دیا اک شاعری نے حسن کو باندھا ہے مختلف جو تتلیوں کی نیند اڑاتی ہے، ایسی نیند مرتے ہیں پھول جس پہ وہ نخرا ہے مختلف جو ابروئوں سے گفتگو کرتا ہے دہر سے وہ حُسن جس کی چُپ کا علاقہ ہے مختلف سنتے ہیں رنگ اُڑتے دوپٹے کی جل ترنگ جس نے بدن کا سیپ تراشا ہے مختلف حمد اور اے خدائے پری زاد تیری حمد چلتا ہے جو زمین پہ شعلہ ہے مختلف راتوں کو جس نے سحر زدہ کر دیا مری جو گھر میں جگمگاتا ہے چہرہ ہے مختلف عامرؔ لہو کی دھار پہ پچھتاوا باندھیے اک لپ سٹک کی سرخی پہ شکوہ مختلف ………… تعمیر اُس بدن پہ تمنا ہے مختلف خواہش کا اور خواب کا ملبہ ہے مختلف پتھر کے اور لکڑی کے گھر ایک سے نہیں آبادیوں میں خوف کا دھڑکا ہے مختلف دامن بچا کے ملیے تو اپنائیت بہت پوروں سے چھُو کے دیکھو تو دنیا ہے مختلف اترے تو کھال کھینچ کے لے جائے ساتھ میں چمکے تو یہ فریب کا چولا ہے مختلف شاید ملیں دوبارہ کسی تختِ خواب پر اب انتظامِ دید کا وعدہ ہے مختلف کیسے کسی وجود نے اپنا تمام عکس مخمل کی چادروں پہ اُتارا ہے مختلف تیری طرف بڑھیں تو بھرے شہر روک لیں پھر بھی ہمارا‘ بھیڑ سے رستہ ہے مختلف دل پر بچھے نہ شعروں سے محو کلام ہو یہ سات آسمانوں کا پردا ہے مختلف سارے یُگوں کا نُور جو مل کر نہ دھو سکے اس بار تو ضمیر پہ دھبا ہے مختلف جس کی خروش جسم کو دونیم کرگئی سچ ہے دُھلا وہ کانچ کا ٹکڑا ہے مختلف عامرؔ بس ایک بار اسے اور دیکھ لوں یعنی پلک پہ نیند کا قصہ ہے مختلف ………… رنگت کا تیر اس نے اُچھالا ہے مختلف اور اس ادا کو دیکھنے والا ہے مختلف معزول کردیا گیا میں دل کے تخت سے اور اب کسی حویلی پہ تالا ہے مختلف وہ داستان گو، جسے قصوں میں ڈھال لیں گردن کا حسن، جسم کی مالا ہے مختلف آفس کے کام سے بھی جو رنگت نہ ماند ہو گھر کو چلے تو اُس میں اُجالا ہے مختلف وہ دکھ میں مبتلا ہو تو بادل چھلک پڑیں ہنسنے لگے تو صحن میں ہالہ ہے مختلف چُنیے لبوں کی کانپتی آیت سے گفتگو ان ہرنیوں میں ایک غزالہ ہے مختلف تجھ کو غزل کیا ہے بڑی دیر بعد آج یادوں کی رُت میں خود کو سنبھالا ہے مختلف مصرعوں میں گوندھتا ہوں تری کائنات کو اس ٹھیکری سے میرا پیالہ ہے مختلف میں معتکف ہوں عشق کا احرام باندھ کر پریوں کی سلطنت کا شوالا ہے مختلف تم بھی سہیلیوں میں ہو اک اپسرا سمان میرا بھی شاعروں میں حوالہ ہے مختلف بُجھتا ہے جسم اور اندھیرے کے وار سے مجھ کو سنبھال، دشت کا بھالا ہے مختلف کیا زخم دار ہونٹ ترا سامنا کریں عامرؔ مرے دکھوں کا ازالہ ہے مختلف! آج کا مطلع دن پہ جاری ہے رات کی الگار اور، ابھی تک نہیں رُکی الگار الگار(بلوچی ) بمعنی یلغار

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں