خوبصورت پاکستان میرا خواب ہے… وزیراعظم نوازشریف وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’خوبصورت پاکستان میرا خواب ہے‘‘ اور میں نیند میں ہی سارے کام سرانجام دیتا اور اس خواب سے بھی لطف اندوز ہوتا رہتا ہوں جس کی تعبیر پنجاب سے شروع ہوگی اور وقت آنے پر دوسرے صوبے بھی اس سے استفادہ کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جمہوریت کو کامیاب بنانے کے لیے سب کو کردار ادا کرنا ہوگا‘‘ کیونکہ حکومتیں تو فرداً فرداً اپنی ہی کامیابی کے لیے کردار ادا کرتی ہیں‘ اس لیے ان سے زیادہ امید رکھنے کی ضرورت نہیں ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’اس خواب کو عملی جامہ پہنائیں گے‘‘ کیونکہ اب تک تو یہی ہو رہا ہے کہ اس کے لیے جو بھی جامہ تیار کرواتے ہیں‘ اُس پر تنگ ہی بیٹھتا ہے‘ اور جب تک اسے کھلا کرواتے ہیں‘ مسائل کا جسم اور بھی پھیل چکا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت ڈلیور کرے گی‘‘ عوام بہت جلد کسی خوشخبری کی امید رکھیں۔ آپ اگلے روز لندن میں ’’دنیا‘‘ نیوز سے بات کر رہے تھے۔ مزید 9 سال بھی جنگ کریں تو امن نہیں ہو سکتا… عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’مزید 9 سال بھی جنگ کرتے رہیں تو امن نہیں ہو سکتا‘‘ البتہ دسویں سال میں جا کر کامیابی ہو سکتی ہے‘ اس لیے اس کارِ خیر کو جاری رکھنا چاہیے کیونکہ قوموں کی زندگی میں 9 سال کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور یوں چٹکیوں میں گزر جاتے ہیں (انہوں نے نمونے کے طور پر 9 چٹکیاں بھی بجا کر دکھائیں) ۔انہوں نے کہا کہ ’’سانحہ پشاور کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا افسوسناک ہے‘‘ ،البتہ اسے غیر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مذاکرات کا عمل جاری رہنا چاہیے‘‘ اور ساتھ ساتھ ان حضرات کی تلاش بھی جاری رہنی چاہیے جن سے یہ مذاکرات ہونا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’چرچ پر حملہ صوبائی حکومت کی ناکامی نہیں‘‘ تاہم اسے کامیابی بھی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ وہ ابھی تک کسی معاملے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ آپ اگلے روز دائود خیل میں میجر جنرل ثناء اللہ شہید کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھانے کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ ہم آزاد قوم ہیں‘ مستقبل کے فیصلے خود کریں گے… حمزہ شہباز نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی میاں حمزہ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’ہم ا ٓزاد قوم ہیں‘ مستقبل کے فیصلے خود کریں گے‘‘ البتہ ماضی کے جملہ فیصلے ہم نے خود نہیں کیے تھے کیونکہ ہم حال ہی میں آسودہ ہوئے ہیں اور ہمارے اقتدار حاصل کرنے سے پہلے عوام محض غلامانہ زندگی گزار رہے تھے ‘ اس لیے ہمارے فیصلے کوئی اور کرتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’نوجوانوں کو اپنے والدین کا شکر گزار ہونا چاہیے‘‘ جن کی قربانیوں کی وجہ سے وہ یہاں تک پہنچے ہیں کیونکہ حکومت کی قربانیوں کا ابھی وقت نہیں آیا اور اگر والدین خود ہی سارا کچھ کر سکتے ہیں تو حکومت کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملکی ترقی کے لیے نوجوانوں کو حکومت کا ساتھ دینا ہوگا‘‘ ورنہ نوجوان ہمیں اچھی طرح سے جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے‘ ان کی عافیت اسی میں ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے حکومت کو جاننے کی کوشش کریں‘ ورنہ انہیں پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں پوزیشن ہولڈر طلبہ سے خطاب کر رہے تھے۔ لڑائی درندوں سے ہے‘ ہر فیصلے میں حکومت کے ساتھ ہیں… خورشید شاہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ’’لڑائی درندوں سے ہے‘ ہر فیصلے میں حکومت کے ساتھ ہیں‘‘ ماسوائے اس فیصلے کے جو خدانخواستہ ہمارے خلاف ہوگا جس میں نیب کو ہمارے مقدمات وغیرہ کھولنے کو کہا جائے گا اور جو اس سمجھوتے کی صریح خلاف ورزی ہوگی جو دونوں جماعتوں کے مابین قرار پا چکا ہے کیونکہ چیئرمین نیب کو بھی اب بالآخر تعینات کرنا ہی پڑے گا جس کے نہ ہونے سے سارا کام رکا پڑا تھا حالانکہ کئی کام ایسے ہوتے ہیں جن کا رُکا رہنا ہی قرینِ مصلحت ہوتا ہے کیونکہ زرداری صاحب اب تو ویسے ہی فارغ ہیں‘ اس لیے ان کے ساتھ اس طرح کا سلوک مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف ہوگا جبکہ سابق وزرائے اعظم اور دیگر زعماء بھی مسکینوں میں شمار ہونے لگے ہیں جبکہ ہمارے دین میں مساکین کی مدد کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوامی جذبہ امید کی کرن ہے‘‘ اور ہمارے پانچ سالہ کمالات کے بعد بھی اگر عوامی جذبہ باقی رہ گیا ہے تو اس سے بڑا عجوبہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ گورنر کو استقبالیہ کاسموپولیٹن کلب کی طرف سے اگلے روز باغِ جناح میں گورنر پنجاب کے اعزاز میں دیا جانے والا استقبالیہ بارش کی وجہ سے اگرچہ ٹھنڈا ٹھار ہو گیا تھا اور ایک مرحلے پر یہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ شاید گورنر صاحب کی عدم تشریف آوری کی بنا پر یہ تقریب منسوخ ہی نہ کرنی پڑ جائے جس میں صاحبِ موصوف نے کلب کے نو تعمیر ہال کا افتتاح بھی کرنا تھا۔ تقریب کے انعقاد کا اہتمام باہر کھلے میں کیا گیا تھا لیکن بارش نے سارا کام ہی تلپٹ کردیا اور مہمانِ عزیز کی آمد پر اندر ایک کمرے میں کرنا پڑا جہاں اے سی تھا نہ کوئی پنکھا‘ چنانچہ یہ ٹھنڈی تقریب جس کی وجہ سے خاصی گرم ہو گئی۔ ایک آدھ استثنیٰ کے علاوہ کلب کے چُنیدہ ارکان اور انتظامیہ ہی شرکاء میں شامل تھی جبکہ آئو بھگت کرنے والوں میں ہمارے دوست شاہد قادر سب سے نمایاں تھے۔ اس تقریب میں شمولیت کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ کم و بیش 30 برس کے بعد شجاعت ہاشمی سے مُڈبھیڑ ہو گئی جنہیں میں تو پہچان نہ سکا البتہ انہوں نے مجھے پہچان مارا، دیکھتے ہی میری طرف لپکے، دعائیں دیں، ’’کام‘‘ جاری رکھنے اور اپنی صحت کا خیال رکھنے کی تلقین کے بعد اس بھیڑ بھڑکّے میں پھر غائب ہو گئے۔ صدر کلب نے اپنے خیر مقدمی کلمات میں گورنر کی طرف سے صحت اور تعلیم کے شعبوں میں خصوصی دلچسپی اور ان کے متعدد منصوبوں کی تعریف کی۔ گورنر نے کلب کی لائبریری کے لیے 3 لاکھ کی رقم اپنی جیب سے ادا کرنے کا اعلان کیا۔ ہم صحافیوں کے گورو گھنٹال اور سدابہار برادرم مجیب الرحمن شامی بھی موجود تھے اور بھیڑ میں ڈاکٹر اجمل نیازی کی جھلک بھی دکھائی دی۔ چائے کے لیے باہر کا بلاوا آیا تو خاکسار نے وہاں سے کھسکنے میں کافی پھرتی دکھائی ،اس لیے بعد کا احوال معلوم نہیں ہو سکا۔ تمت بالخیر! آج کا مطلع وہ دلبر ہمارا پھرندر گرندڑ ہے سارے کا سارا پھرندر گرندڑ پھرندر گرندڑ (سندھی) بمعنی متلون مزاج