تمباکو نوشو! ہم آپ سے معذرت خواہ ہیں کہ آپ کا یہ صفحہ کافی تاخیر سے شائع کیا جا رہا ہے ؛حالانکہ ہم خود سگریٹ کے عادی ہیں اور آپ کے ساتھ ساتھ اس طرح ہماری بھی حق تلفی ہو رہی تھی۔ دیر آید درست آید کے مصداق‘ امید ہے آپ ہماری اس کوتاہی سے درگزر فرمائیں گے ۔اس صفحے کی اشاعت سے حقہ نوشوں اور نسوار خوروں کی بھی حق رسی ہونے کی پختہ امید ہے جبکہ تمباکو کی فصل کاشت کرنے والے بھی اس سے مستفید ہو سکیں گے۔ علاوہ ازیں سگریٹ ساز کمپنیوں کی طرف سے ہمیں اشتہارات ملنے کی بھی پوری پوری امید ہے کیونکہ ہماری اس کاوش سے اس صنعت کو بھی فروغ حاصل ہونے کی توقع ہے۔ ہمارے خیال کے مطابق ’چین سموکر ‘کی اصطلاح کچھ مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ کسی کی خوش حالی پر زبانِ طعن دراز کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ محض حسد کی وجہ سے ہے۔ سگریٹ کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ بچے آپ سے چھپ کر سگریٹ پیتے ہیں اور آخری عمر میں آ کر آپ بچوں سے چھپ کر ایسا کرتے ہیں۔ ہمیں امیدِ واثق ہے کہ ہماری یہ سعی مشکور آپ کو خاطر خواہ طور پر پسند آئے گی۔ براہ کرم اس کے بارے میں اپنی قیمتی رائے اور مشوروں سے ضرور نوازیں۔ سبق آموز واقعات کسی محفل میں ایک صاحب بہت مہنگے سگریٹ پی رہے تھے اور وہ بھی سگریٹ سے سگریٹ سلگا کر۔ وہیں بیٹھی ایک خاتون نے ان سے پوچھا کہ یہ ڈبیہ کتنے کی آتی ہے؟ انہوں نے بتایا تو خاتون نے پوچھا کہ روزانہ کتنی ڈبیاں پی جاتے ہیں؟ انہوں نے کہا کوئی بیس پیکٹ! خاتون نے پھر پوچھا ، کب سے پی رہے ہیں ؟انہوں نے جواب دیا کہ تقریباً 50 سال سے۔ موصوفہ بولیں کہ اگر آپ سگریٹ نہ پیتے ہوتے تو آپ ایک پجارو کے مالک ہوتے ۔ ان صاحب نے پوچھا‘ کیا آپ سگریٹ پیتی ہیں؟ خاتون نے نفی میں جواب دیا تو وہ بولے‘ آپ کی پجارو کہاں ہے؟ امریکہ کی ایک سگریٹ ساز کمپنی اپنی سو سالہ تقریبات کا اہتمام کر رہی تھی۔ انہیں معلوم ہوا کہ فلاں ریاست کے فلاں گائوں میں ایک صاحب گزشتہ 70 سال سے اس برانڈ کے سگریٹ پی رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک نمائندے کو وہاں بھیجا جس نے پہلے گائوں والوں سے اس کی تصدیق کی اور پھر بڑے میاں کے پاس جا پہنچا جو اس وقت وہی سگریٹ پی رہے تھے۔نمائندے نے پوچھا:بڑے میاں‘ کبھی آپ نے جیٹ ہوائی جہاز میں سفر کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ کیا تو نہیں لیکن سنا ہے کہ بڑے مزے کا سفر ہوتا ہے ۔اس میں خوبصورت ایئر ہوسٹس خصوصی مشروبات کے علاوہ آپ کے لیے خورونوش کا اہتمام بھی کرتی ہیں۔ اس شخص نے پھر پوچھا: بابا جی‘ کبھی آپ فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہرے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ایسا اتفاق تو کبھی نہیں ہوا لیکن سنا ہے کہ وہاں تو نری عیاشی ہوتی ہے۔ اس نے پھر پوچھا:بڑے میاں کبھی آپ ٹی وی پر آئے ہیں؟ موصوف نے جواب دیا کہ موقعہ تو کبھی نہیں ملا ؛البتہ ٹی وی پر تصویریں دیکھ کر خوش ہو لیا کرتا ہوں۔ نمائندے نے کہا : بابا جی‘ فلاں تاریخ کو ہمارا ایک نمائندہ آپ کو جیٹ ہوائی جہاز میں بٹھا کر نیویارک لے جائے گا جہاں آپ کو فلاں ہوٹل میں ٹھہرایا جائے گا اور صبح سات بجے آپ ٹی وی کے سامنے ہوں گے! بڑے میاں بولے‘ یہ مجھے منظور نہیں ہے۔ اس نے وجہ پوچھی تو موصوف نے کہا کہ وہ تو میرے کھانسنے کا وقت ہے! ایک صاحب کسی ریستوران میں بیٹھے بہت قیمتی سگریٹ پی رہے تھے کہ ساتھ بیٹھے ایک صاحب نے ان سے وہی سوالات کیے جو اوپر درج کیے گئے ہیں۔ جب وہ سب کچھ بتا چکے تو ساتھ بیٹھے شخص نے حساب لگا کر ان سے کہا کہ اگر آپ سگریٹ نوش نہ ہوتے تو یہ سامنے والا پلازہ آپ کا ہوتا‘ جس پر وہ صاحب بولے اتفاق سے وہ پلازہ میرا ہی ہے! ایک صاحب سگریٹ پی رہے تھے ،ان کے ساتھ ایک نان سموکر بھی بیٹھا تھا۔ جب وہ سگریٹ پی چکے تو نان سموکر نے کہا کہ بھائی صاحب آپ نے جو سگریٹ پیا ہے‘ اس کا آدھا دھواں میرے اندر گیا ہے۔وہ صاحب بولے کہ اس سگریٹ کی قیمت دو روپے تھی‘ براہ کرم ایک روپیہ عنایت کر دیجیے! ایک شخص کے کپڑوں میں آگ لگی تھی جسے بجھانے کے لیے وہ نل کی طرف بھاگا جا رہا تھا کہ ایک صاحب نے جن کے ہاتھ میں سگریٹ تھا‘ انہیں روک کر کہا کہ بھائی صاحب‘ ذرا سگریٹ لگواتے جایئے! مسلم شیخ کا بچہ شدید بیمار تھا۔ وہ اور اس کی بیوی رات کو اس کے پاس بیٹھے تھے کہ مسلم شیخ کی آنکھ لگ گئی۔ تھوڑی دیر بعد بیوی نے چیخ کر کہا‘ حال اوئے‘ ہم لُٹ گئے! مسلم شیخ بڑبڑا کر اٹھا اور بولا‘ کیا ہوا ہے ؟بیوی نے کہا کہ بچے نے دم دے دیا ہے۔اس پر وہ بولا: تم نے تو میری جان ہی نکال لی تھی‘ میں سمجھا حُقہ گر گیا ہے! دو شخص کہیں جا رہے تھے کہ ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم کس قدر گھٹیا آدمی ہو‘ میرے پھینکے ہوئے سگریٹ اٹھا اٹھا کر پی رہے ہو۔ دوسرا بولا کہ گھٹیا تو تم ہو جو فلٹر کے علاوہ اس میں کچھ چھوڑ ہی نہیں رہے ہو۔ ایک شخص کہیں جا رہا تھا کہ ایک اور صاحب نے اس سے پوچھا‘ آپ کے پاس ماچس ہے ؟اس نے اثبات میں جواب دیا تو وہ بولے‘ ماچس ہے تو سگریٹ بھی ہوگا! پسندیدہ اشعار رفتہ رفتہ کسی راکھ میں ڈھلتا رہتا ہے دل سگریٹ کی طرح سلگتا‘ جلتا رہتا ہے دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے بیڑی لایا ہوں‘ بیڑیئے اس کو پان حاضر ہے‘ اس کو پانیے کہ اک اشارہ‘ ہوائی سا وہ بھی اس سے کس کس کو دیجئے نسوار سکھر دے پُل اُتے ساڈے نال حقہ کاہنوں پیتا سیّو‘ ہے جمالو! آج کا مقطع لَو دے اُٹھیں پھلستی ہوئی انگلیاں‘ ظفرؔ وہ آگ تھی کھلے ہوئے ریشم کے تھان میں