حکومت آئینی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے… نوازشریف وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’حکومت آئینی ذمہ د اریوں سے آگاہ ہے‘‘ بلکہ غیر آئینی ذمہ داریوں سے بھی پوری طرح آگاہ ہے کیونکہ دونوں کو ملا جلا کر ہی گاڑی چلانا پڑتی ہے اور گاڑی چلتی رہے تو پھر سب ٹھیک ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’ہر فیصلہ ملکی مفاد کو پیش نظر رکھ کر کریں گے‘‘ اور یہ سبق ہم نے جنرل (ر) پرویز مشرف ہی سے سیکھا ہے جنہوں نے خود ہر فیصلہ ملکی مفاد کو پیش نظر رکھ کر کیا اور ملک کی کایا پلٹ کر رکھ دی جن کے نقش قدم پر چل کر ہم بھی ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اہم عہدوں پر تقرر کے لیے تفصیلی غورو خوض کرنا ہوگا‘‘ اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ غور و خوض کرنے میں خاکسار یدِ طولیٰ رکھتا ہے بلکہ اکثر اوقات تو میرے پاس یہ غورو خوض کیا کرایا‘ یعنی تیار ہی ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جمہوریت پر شب خون مارنے کا باب بند ہو چکا‘‘ اگرچہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ بند دروازہ کسی وقت بھی کھولا جا سکتا ہے‘ حتیٰ کہ بعض اوقات یہ ہوا کے جھونکے سے بھی کھل جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’دونوں عہدوں کے ناموں کا اعلان ایک ساتھ کیا جائے گا تاکہ کوئی لڑائی جھگڑا پیدا نہ ہو سکے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک بیان جاری کر رہے تھے۔ آئی ایس آئی اور فوج کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ بنایا… گیلانی سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ’’آئی ایس آئی اور فوج کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ بنایا‘‘ اور اس کے علاوہ جو کارنامے سرانجام دیے ان کا ذکر کرنا ضروری نہیں کیونکہ ساری دنیا انہیں اچھی طرح جانتی ہے‘ یعنی اگر یہ مصروفیات حائل نہ ہوتیں تو میں مزید یادگار خدمات بھی سرانجام دے سکتا تھا لیکن یہ مصروفیات بذاتِ خود ہی اتنی پُرکشش تھیں کہ اور کسی طرف دھیان دینے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’’میرے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا‘‘ کیونکہ ہم پر الزامات ماشاء اللہ پہلے ہی اس قدر زیادہ تھے کہ مزید کوئی الزام اٹھانے کا یارا ہی نہیں تھا‘ ویسے بھی انسان جو کام بھی کرے‘ اُسے پوری یکسوئی سے کرنا چاہیے تاکہ من پسند نتائج برآمد ہو سکیں؛ چنانچہ یہ نتائج بھی ماشاء اللہ سب کے سامنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجھے سرائیکی صوبے کی حمایت کی سزا دی گئی‘‘ اگرچہ ان میں وہ سنہری کارنامے بھی شامل تھے جن کی دھاک پوری دنیا میں بیٹھی ہوئی تھی کیونکہ ان کی افادیت کو حالیہ الیکشن میں عوام اچھی طرح سے سمجھ ہی نہیں سکے جس کا بے حد افسوس ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک ٹی وی انٹرویو دے رہے تھے۔ دہشت گردی کا تحفہ مشرف نے دیا‘ ختم کرنے میں وقت لگے گا… پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ’’دہشت گردی کا تحفہ مشرف نے دیا‘ اسے ختم کرنے میں وقت لگے گا‘‘ اور جو تحفے قوم کو ہم دے کر جائیں گے‘ انہیں ختم کرنے میں بھی آئندہ حکومت کو اتنا ہی وقت لگے گا‘ تاہم اگر انہیں جلد ختم کرنا مقصود ہو تو جنرل صاحب کو دوبارہ بھی موقع دیا جا سکتا ہے تاکہ وہ اسے ختم کر سکیں کیونکہ جو کام جس نے شروع کیا ہو‘ اُسے جلد از جلد ختم بھی وہی کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کل جماعتی کانفرنس نے طالبان سے مذاکرات کا متفقہ فیصلہ کیا تھا‘‘ جس کے لیے قوم سے درخواست ہے کہ وہ دعا مانگے کہ خدا ہمیں یہ مذاکرات شروع کرنے کی توفیق دے‘ ویسے بھی کانفرنس نے اس سلسلے میں کوئی ٹائم فریم نہیں دیا تھا کیونکہ وہ ہمیں بھی جانتی تھی اور ہماری دیگر مصروفیات کو بھی۔ انہوں نے کہا کہ ’’سب جماعتوں کا موقف ایک ہے‘‘ حتیٰ کہ ہم بھی اُن سے پوری طرح متفق ہیں اور انشاء اللہ مذاکرات کا پختہ ارادہ رکھتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ توفیق ارزانی فرمائے! آمین ثم آمین! انہوں نے کہا کہ ’’اگر ہم نے ڈلیور نہ کیا تو لوگ ہمارا احتساب کریں گے‘‘ حالانکہ ان کا حافظہ کافی کمزور ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ سندھ میں گورنر کو تبدیل کرنا چاہیے… ممتاز بھٹو سندھ کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ سندھ ممتاز بھٹو نے کہا ہے کہ ’’سندھ کا گورنر تبدیل ہونا چاہیے‘‘ کیونکہ اگر خاکسار آسانی سے دستیاب ہے‘ اس لیے اتنی دور جانے کی ضرورت ہی نہیں تو اس میں آخر کیا امر مانع ہے کیونکہ ویسے بھی مجھے اس کا اشارا حکومت نے پہلے ہی دے دیا تھا لیکن اب وہ کہتی ہے کہ ہم شریف آدمی ہیں‘ اور اشارا بازی میں یقین نہیں رکھتے‘ وغیرہ وغیرہ ع محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی مزید یہ کہ موجودہ گورنر کی شکل دیکھ دیکھ کر سندھ کے عوام تنگ آ چکے ہیں اور اب انہیں میری شکل سے بھی تنگ آنے کا موقع ملنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مسلم لیگ سے اختلاف رائے ہو سکتا ہے‘‘ اور اس سے بڑا اختلاف رائے اور کیا ہو سکتا ہے کہ انہوں نے مجھ سے میری پارٹی بھی ختم کروا دی اور اب پُٹھے پر ہاتھ ہی رکھنے نہیں دے رہے؛ حالانکہ میں یہ پُٹھ کھا تھوڑی جائوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’پارٹی کو مضبوط بنائیں گے‘‘ جبکہ میری وہاں تعیناتی سے پارٹی خود بخود ہی مضبوط ہو جائے گی اور اس بارے میں کوئی فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔ علی افتخار جعفری صاحبِ کتاب شاعر‘ ذہین نقاد‘ پولیس آفیسر اور ہمارے دوست علی افتخار جعفری ایک بڑے آپریشن کے بعد ہسپتال میں صاحبِ فراش ہیں۔ آپ پچھلے ہی دنوں سوڈان سے واپس آئے ہیں جہاں وہ ڈیپوٹیشن پر گئے ہوئے تھے۔ وہ ہمارے لیے ایک اثاثے سے کسی طور کم نہیں اور جو ابھی نوجوانی ہی کے عالم میں ہیں۔ اُن کی صحت یابی کے لیے خصوصی دعائوں کی اپیل ہے‘ خاص طور پر ادیب برادری اس کارِ خیر میں بھرپور حصہ لے کہ پولیس ملازمت کے باوجود اُن کی خدمات انتہائی قابلِ قدر ہیں جن کا ہم سب کو دلی اعتراف بھی ہے! آج کا مطلع اپنی کھینچی ہوئی سرحد سے گزرنے لگا ہوں دوسری بار اُسی سوچ پہ مرنے لگا ہوں