مذاکرات نہ صرف یہ کہ ہو نہیں رہے بلکہ ان کی کامیابی کے حد درجہ مشکوک ہو جانے کی وجہ سے اب کہیں کوئی گرمجوشی بھی نظر نہیں آ رہی۔ بالفرض اگر یہ تکلف روا رکھ بھی لیا جاتا ہے تو مذاکرات ہمیشہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہوا کرتے ہیں جبکہ حکومت کے پاس انہیں دینے کو کچھ بھی نہیں ہے ماسوائے جنگ بندی کے‘ جس کی انہیں پہلے بھی پروا کم ہی ہے۔ یہ شواہد بھی مل رہے ہیں کہ حکومت نے درپردہ یہ کام شروع کردیا ہے لیکن اب درپردہ مذاکرات کا زمانہ نہیں رہا۔ ملک کے تین صوبوں پر اگر طالبان کی حکومت نہیں تو بالادستی ضرورہے ؛البتہ چوتھے یعنی بڑے صوبے کے ساتھ انہوں نے خصوصی رعایت روا رکھی ہوئی ہے۔ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں جنگ کا آپشن بھی نتیجہ خیز نظر نہیں آتا۔ نیٹو افواج کے نکلنے کے بعد ظاہر ہے کہ ا فغانستان میں طالبان ہی حکمران ہوں گے جس سے متاثر نہ ہونا پاکستان کے بس کی بات نہیں ہے۔ چنانچہ طالبان کو شریک اقتدار کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوگا جس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ طالبان کو انتخابات میں حصہ لینے کا حق دے کر عام انتخابات کرا دیے جائیں۔ اس سے چھوٹی بڑی جماعتوں کے 80 فیصد امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو جائیں گی کیونکہ لوگ حقیقتاً ان کرپٹ اور نااہل حکومتوں اور سیاسی جماعتوں سے تنگ آ چکے ہیں جبکہ یہ ملک اگر اسلامی جمہوریہ ہے تو محض برائے نام حد تک یعنی نہ جمہوریہ ہے نہ اسلامی۔ اب اس بات میں کوئی احمق ہی شک کر سکتا ہے کہ ہمارے سیاستدان محض لوٹ مار کے لیے سیاست کا کھیل کھیلتے ہیں اور سب کے بھڑولے لوٹ مار کے پیسے سے بھرے پڑے ہیں۔ ایک جماعت دوسری پر انگلی اس لیے نہیں اٹھاتی کہ اس کا اپنا پیٹ ننگا ہوتا ہے۔ اصلاً یہ گدھ اور چیلیں ہیں جو اس بدنصیب ملک کو نوچ نوچ کر ادھ موا کر چکی ہیں۔ غربت کا عالم یہ ہے کہ خودکشیوں کے ساتھ ساتھ غریب اور نادار والدین کے بچے مدرسوں کی پناہ لیتے ہیں اور وہاں سے تربیت حاصل کر کے طالبان کے دست و بازو بن جاتے ہیں۔ یہاں پر فوجی آمر بھی نجات دہندہ بن کر اور احتساب کا نعرہ لگا کر آتے ہیں اور پھر اپنے ناجائز اقتدار کو طول دینے کے لیے برف میں لگ جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے کارہائے نمایاں ہی کی وجہ سے ہماری فوج اور دوسرے عسکری ادارے بھی طالبان کے اثرو نفوذ سے محفوظ نہیں اور اہم تنصیبات پر حملوں سے یہ امر پایۂ ثبوت کو بھی پہنچ چکا ہے جس کا سبب حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے صریح غیر اسلامی رویّے بھی ہیں جو اب دین سے معمولی شغف رکھنے والوں کے لیے بھی ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔ سو‘ اگر یہ واقعی ایک جمہوریہ ہے تو طالبان کو اس دھارے میں شامل کر کے یہ فساد ہمیشہ کے لیے ختم کیوں نہیں کیا جاتا۔ وہ اگر انتخابات میں اکثریت حاصل کر گئے‘ جو ایک یقینی بات ہے تو وہ ایک قابلِ عمل آئین بھی بنا لیں گے۔ آخر ان بار بار کے آزمائے ہوئوں کو ہم کب تک آزماتے چلے جائیں گے۔ اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پانی اپنا راستہ خود بناتا ہے یعنی ع سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے اس لیے کسی خوش فہمی میں مبتلا رہنے کی اب کوئی گنجائش نہیں ہے‘ ملک کی واضح اکثریت پہلے ہی ان کے ساتھ ہے جبکہ حکمرانوں کا اپنا مینڈیٹ بھی کافی حد تک مشکوک ہو چکا ہے‘ اس لیے منتخب اسمبلیوں اور نمائندہ حکومتوں کے بارے میں لوگ پہلے ہی شک و شبہ میں مبتلا ہیں اور یہ سارا سسٹم تاش کے پتوں کی طرح ہوا کے ایک جھونکے سے ہی بکھر سکتا ہے جبکہ ملک اقتصادی لحاظ سے پہلے ہی ناقابلِ رفت ہونے کے قریب ہے۔ طالبان کی حکومت آتی ہے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ بھارت کے ساتھ مضبوط لہجے میں بات ہو سکے گی اور اس کے ساتھ جملہ نئے اور پرانے تنازعات کا حل نکلنے کی کوئی صورت پیدا ہوگی کیونکہ ترلے منت والی پالیسی پھر نہیں چلے گی اور جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوگی کہ طالبان کی لہر خود بھارت کو بھی بُری طرح متاثر کرے گی‘ حتیٰ کہ امریکہ اور مغربی طاقتیں بھی صحیح رویّہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گی۔ قصہ مختصر‘ لوٹی ہوئی دولت بھی طالبان ہی واپس لا سکتے ہیں اور چوروں کے لیے سزائیں بھی اُدھر ہی سے آئیں گی اور ہم خود بھی سارے کے سارے بندے کے پُتر بن جائیں گے کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار ہی نہیں رہے گا۔ چنانچہ یہ ملک طالبان کا ہے اور کرپٹ حکومتوں نے خود اس کو ان کی جھولی میں ڈال دیا ہے اور ہمارے فرعونوں کے لیے یہی موسیٰ ثابت ہوں گے کہ ہاتھ میں عصا بھی رکھتے ہیں۔ آخر میں یہ بات دہرانے میں کوئی ہرج نہیں کہ اگر انہیں شرافت سے نہیں لائیں گے تو یہ خود آ جائیں گے‘ بلکہ یہ خدا کی لاٹھی بن کر آئیں گے جو بے آواز بھی نہیں ہوگی کیونکہ ان کے بارے میں ہماری ساری تاویلیں بے معنی اور سارے حربے ناکام ہو چکے ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ دیوار پر جو کچھ لکھا جا چکا ہے‘ اسے بغور پڑھ لیا جائے کیونکہ دیواروں کا کام اتنا ہی ہوتا ہے‘ باقی سب کچھ کرنے والے خود ہی کر لیا کرتے ہیں۔ وما علینا الا البلاغ! نیلگوں یہ ہمارے معروف اور سینئر شاعر شہاب صفدر کا تیسرا مجموعہ کلام ہے۔ جو مثال پبلشرز فیصل آباد نے شائع کیا ہے۔ جس کے فلیپ پر صاحبِ اسلوب شاعر محمد اظہار الحق اور افتخار عارف کی تحسینی آرا درج ہیں۔ اس کے کچھ خوبصورت اشعار دیکھیے: تو چل دیا اجاڑ کے لیکن تیرا خیال ان بستیوں سے ترکِ سکونت نہ کر سکا میں لخت لخت ہوں قاسم کی پیروی میں شہاب کہیں پہ ہاتھ کہیں پائوں اور کہیں سر ہے جب تک تیری آنکھوں میں نہیں تھا تو نہیں تھا اب دیکھنے والوں کو نظر آنے لگا ہوں کیسے وہ آئے ہاتھ جو ہو دسترس سے دور کیسے بنائیں بات جہاں بات ہی نہ ہو اک دن کہ جس کی یاد ستائے ہر ایک دن اک رات جس کے بعد کوئی رات ہی نہ ہو قارون سے بڑھ کر ہے وہ بے فیض کہ جس نے اِک حرف تسلی کی بھی خیرات نہیں کی پھر اس کے بعد کہاں دیکھ پائوں گا خود کو میں اپنا آخری دیدر کرنے آیا ہوں آج کا مقطع دیکھا تھا ظفرؔ جس کو ابھی نہر کے پُل پر روشن ہے وہی شمع کتابوں کی دکاں میں