’’شب خون‘‘ کی بندش کے بعد ہمارے کرم فرما شمس الرحمن فاروقی اُس کی جگہ اب ’’خبرنامۂ شب خون‘‘ شائع کرتے ہیں جو ہوتا تو خبرنامہ ہی ہے لیکن اس میں مضامین‘ تبصرے‘ انٹرویوز اور قارئین کے خطوط باقاعدگی سے چھپتے ہیں اور ایک رونق لگی رہتی ہے جبکہ وہ اس کے صفحات میں قدرے اضافہ کر کے ایک مختصر اور باقاعدہ رسالہ بھی بنا سکتے ہیں جس میں افسانوں وغیرہ اور شاعری کی بھی گنجائش نکل سکتی ہے؛ تاہم اس صورت میں بھی یہ پرچہ دلچسپ ہے اور اس کا انتظار رہتا ہے۔ اس کے تازہ شمارے میں ایک مکتوب نگار نے ساقیؔ فاروقی کے کسی انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے‘ جو شاید وہیں کے کسی جریدے میں شائع ہوا ہے‘ لکھا ہے کہ ساقی فاروقی کو ظفر اقبال سے نجانے کیا کد ہے‘ میں نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ وہ انٹرویو کیا تھا اور کس رسالے میں چھپا ہے‘ نہ ہی اس کی ضرورت تھی کیونکہ ایک تو ساقی ہمارے دوست ہیں اور دوسرے انہیں بھی دوسروں کی طرح ہر قسم کی رائے رکھنے اور اسے ظاہر کرنے کا حق حاصل ہے۔ وہ میرے خلاف کیوں ہوں گے لیکن اگر ہوں بھی تو ٹھیک ہی ہوں گے کیونکہ وہ اگر میرے نہیں تو کیا سرشارؔ صدیقی کے خلاف ہوں گے؟ ساقیؔ پہلے کبھی کبھار فون کر لیا کرتے تھے اور ہمیشہ ’’بدمعاش‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتے۔ مثلاً انہوں نے اپنی نظموں کا تازہ مجموعہ اور غزل کا کلیات بھجوایا تو ساتھ ہی اس پر تبصرہ کرنے کی فرمائش بھی کی حالانکہ میں کون سا نقاد ہوں اور الحمدللہ کہ نہیں ہوں؛ تاہم میں نے اس کے کلیات کے بارے میں لکھا کہ میں نے اس میں سے اپنی ڈھب کے چار شعر نکالے ہیں اور غالباً وہ شعر نقل بھی کر دیئے۔ یہ یقینا کوئی سند نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ محض اپنی پسند کا معاملہ ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے ساقیؔ شاید میرے کُل کلام میں سے‘ یا جتنا کچھ اُن کی نظر سے گزرا ہے‘ چار شعر بھی نہ نکال سکیں۔ ساقیؔ سے اب تک ایک ہی ملاقات ہوئی ہے۔ چند سال پہلے ایک تقریب کے سلسلے میں لندن جانا ہوا تو یہ ممکن نہ تھا کہ آپ لندن جائیں اور ساقیؔ سے ملاقات نہ ہو۔ چنانچہ میں‘ افتخار عارف اور چند دیگر دوست اس کے ہاں گئے جہاں خاطر و مدارات کے علاوہ خوب گپ شپ بھی لگائی گئی۔ وہاں اس نے اپنے محبوب کتے کی قبر بھی دکھائی جہاں اس نے اپنے گھر کے گرین سپاٹ میں دفن کر رکھا تھا اور جو ایک گاڑی کی لپیٹ میں آ کر اُسے داغِ مفارقت دے گیا تھا؛ چنانچہ ایک ساتھی نے ان سے پوچھ بھی لیا کہ آیا اسے کفن بھی پہنایا گیا تھا یا نہیں؟ بھارت اور یہاں سے شائع ہونے والی ایک دوسرے کی چیزیں ہم دیکھتے رہتے ہیں اور کبھی کبھار ان پر اظہارِ خیال بھی۔ مثلاً ایک بار ساقیؔ نے ’’دنیازاد‘‘ میں شائع ہونے والی میری غزلوں کے بارے میں‘ اسی رسالے میں چھپنے والے ایک خط میں لکھا کہ میں چاہتا ہوں کہ پہلی فرصت میں پاکستان آئوں اور ظفر اقبال کو قتل کر دوں! چنانچہ میں نے اپنے دن گننا شروع کردیئے کہ آخر ایک روز مرنا تو ہے ہی‘ ایک شاعر دوست کے ہاتھوں یہ کام سرانجام پا جائے تو اور کیا چاہیے۔ لیکن وہ شبھ گھڑی نہیں آئی‘ شاید انہوں نے اپنا ارادہ تبدیل کر لیا ہو۔ ساقیؔ نے مکتوب نگاری اور معرکہ آرائی میں خوب نام کمایا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو کچھ ایسا غلط نہ ہوگا کہ ان کی زندگی بچپن ہی سے خاصی ہنگامہ خیز رہی ہے جس کا کچھ احوال انہوں نے اپنی خود نوشت ’’پاپ بیتی‘‘ میں بھی بیان کیا ہے بلکہ کچھ اور بھی داستانیں اِدھر اُدھر بکھری پڑی ہیں۔ مثلاً دلچسپ تصنیف ’’سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان‘‘ کے مصنف سید انیس شاہ جیلانی‘ جو رئیس امروہوی مرحوم کے یارِ غار بھی رہے ہیں اور محمد آباد (صادق آباد) میں انہوں نے اپنے والد گرامی کے نام پر مبارک لائبریری بھی قائم کر رکھی ہے‘ نے اپنے رسالے ’’لالۂ صحرا‘‘ میں اس حوالے سے مضمون باندھا ہے۔ رسالے میں ساقیؔ کے اُس زمانے کی ایک تصویر بھی شامل ہے جب کہ اس کے علاوہ وہاں اور کوئی تصویر نہیں شائع کی گئی۔ انہوں نے پرچہ مجھے بھیجا تو اسے پڑھ کر میں نے انہیں فون کر کے اپنی ناخوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہر بات لکھنے اور چھاپنے کے لیے نہیں ہوتی۔ پس نوشت: اتفاق دیکھیے کہ ابھی جب میں یہ سطور تحریر ہی کر رہا تھا کہ ساقیؔ کا فون آ گیا۔ لندن میں مسٹر ملک ہمارے ایک دوست ہیں جو ساقیؔ کے بھی ملنے والوں میں سے ہیں۔ اُس وقت اُن کے پاس مسٹر ملک کے علاوہ جتندر بلّو اور کچھ دیگر ادیب بھی موجود تھے۔ دراصل مسٹر ملک نے ساقی کو کہیں بتا دیا کہ انہوں نے بھارت میں جو انٹرویو شائع کروایا ہے اور جس میں ظفر اقبال کے خلاف ان کے ریمارکس بھی موجود تھے‘ تو یہ فون کال اُسی کا شاخسانہ تھی۔ میں نے کہا اوئے‘ بدمعاش تم مجھے کہا کرتے ہو اور بدمعاشی تم نے خود شروع کردی ہے‘ یہ کیا بات ہوئی؟ جس پر وہ بولا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں‘ اگر کچھ کہا بھی ہوگا تو محبت میں کہہ دیا ہوگا! پھر کہا کہ تمہاری 25 فیصد شاعری سے مجھے اتفاق ہے اور باقی پر میرے تحفظات ہیں‘ میں نے کہا کہ اگر باقی ماندہ پر بھی تمہیں اتفاق ہوتا تو میں نے یہ سارا کلام دریا بُرد کر دینا تھا! مطلب یہ کہ رشتے اور تعلقات آسانی سے بنتے نہ ہی اتنی آسانی سے ٹوٹا کرتے ہیں۔ میرے اور شمس الرحمن فاروقی کے درمیان اختلافی گپ شپ بھی چلتی رہتی ہے لیکن ہم ایک دوسرے کے ماننے والوں میں سے ہیں اور ایسی باتوں سے تو تعلق بعض اوقات مضبوط تر ہوتا ہے۔ یہی صورت حال میری اور انتظار حسین کی ہے یعنی وہ مجھے چھیڑ کر خوش ہوتے ہیں اور میں اُنہیں۔ اور ہماری محبت میں کبھی فرق نہیں آیا‘ آ ہی نہیں سکتا۔ سو‘ ساقی ہمارا یار بھی ہے اور یہ محبت بازی رُک رُک کر چلتی بھی رہتی ہے‘ چشمِ بددور! مقطع مجھ سے چھڑوائے میرے سارے اصول اس نے ظفرؔ کتنا چالاک تھا‘ مارا مجھے تنہا کر کے