ناگہانی حالات میں معذور افراد کے تحفظ کے لیے پُرعزم ہیں… نوازشریف وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’ہنگامی حالات میں معذور افراد کے لیے پُرعزم ہیں‘‘ البتہ غیر ہنگامی یعنی نارمل حالات میں انہیں اپنا تحفظ خود کرنا ہوگا کیونکہ انہیں معذور ہم نے نہیں کیا‘ اسی طرح غیر معذور افراد کو بھی اپنا تحفظ خود کرنا چا ہیے کیونکہ ہٹے کٹے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی حکومت یا دوسروں کا مرہونِ منت ہو کر رہ جائے جبکہ اکثر معاملات میں ہم خود بُری طرح سے معذور ہیں‘ مثلاً لوڈشیڈنگ اور بیروزگاری گھٹانے میں معذور ہیں اور اسی طرح مہنگائی اور بجلی کے نرخوں میں کمی کرنے سے بھی معذور ہونے کے علاوہ الیکشن سے قبل لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور دیگر مسائل چُٹکیوں میں حل کر دینے کے وعدوں کو بھی پورا کرنے سے سراسر معذور ہیں‘ اس لیے زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ معذور افراد اپنے ساتھ ساتھ ہمارا بھی خیال رکھیں‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’معذور افراد قومی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں‘‘ کیونکہ سابق حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی دیگر ضروری کاموں میں بُری طرح سے مصروف ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں معذوروں کے عالمی دن پر پیغام نشر کروا رہے تھے۔ خیبر حکومت کرپشن روکنے کے لیے نئے قوانین بنائے… عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’خیبر پختونخوا حکومت کرپشن روکنے کے لیے نئے قوانین بنائے‘‘ اور اگر کرپشن اُن سے بھی نہ رُک سکے تو مزید نئے قوانین بنائے تاکہ کل کو ہم کہہ سکیں کہ ہم نے تو بار بار قوانین بھی بنائے اور اگر کرپشن ختم نہیں ہوئی تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’انصاف تک رسائی کے لیے حکومتی نظم و نسق شفاف بنایا جائے‘‘ لیکن شاید اس سے بھی کوئی فرق نہ پڑے کیونکہ حالیہ الیکشن کو بھی شفاف بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن محض چند مقامات پر ہی الیکشن کی شفافیت برقرار نظر آئی‘ جہاں بوگس انگوٹھے اور ٹھپے لگانا صاف و شفاف نظر آ رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’وسائل عوام پر خرچ ہونا چاہئیں‘‘ جبکہ ابھی تک تو عوام ہی وسائل پر خرچ ہو رہے ہیں اور یہ ایک عجیب و غریب ماڈل صوبے کی شکل اختیار کرتا چلا جا رہا ہے جس پر نظرثانی کی شدید ضرورت ہے‘ پیشتر اس کے کہ سارے عوام ہی وسائل پر خرچ ہو کر رہ جائیں اور ہم دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ جائیں کہ اب حکومت کس پر کریں۔ آپ اگلے روز پشاور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ بلدیاتی الیکشن: حلقہ بندیوں کے خلاف ہم بھی عدالت جائیں گے… خورشید شاہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ’’بلدیاتی الیکشن کی حلقہ بندیوں کے خلاف ہم بھی عدالت جائیں گے‘‘ اگرچہ چیئرمین نیب کی تقرری کے بعد ویسے بھی عدالتوں میں ہمارا آنا جانا لگا ہی رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں نہ صرف حلقہ بندیوں پر اعتراض ہے بلکہ انہیں پری پول رِگنگ بھی سمجھتے ہیں‘‘ حالانکہ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ الیکشن کے دوران بھی رگنگ کے سنہری مواقع پورے کے پورے موجود ہوں گے جن پر واویلا کرنا ہمارا حق بھی ہے اور ہم اسے استعمال بھی کریں گے‘ جس طرح گزشتہ پانچ برسوں میں شہرۂ آفاق کارگزاری سابق وزرائے اعظم سمیت ہم سب کا حق تھا۔ آپ اگلے روز اوکاڑہ میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ احفاظ الرحمن یہ بات تو طے ہے کہ بالآخر نظم رفتہ رفتہ غزل کی نہ صرف جگہ لے رہی ہے بلکہ اس سے آگے نکلنے میں بھی کوشاں ہے۔ صرف پنجاب ہی میں یہ صنف ابرار احمد‘ اختر امان‘ اقتدار جاوید‘ فرخ یار اور کئی دیگران کے ہاتھوں اپنا نقش جمانے میں لگی ہوئی ہے اور اپنا وہ مقام حاصل کرنے میں کوشاں ہے جس کی یہ بجا طور پر حقدار بھی تھی۔ چنانچہ جہاں غزلوں کے مجموعے دھڑا دھڑ چھپ رہے تھے‘ اب وہاں نظموں کی کتابوں کی بھی رونق لگی ہوئی ہے؛ تاہم یہ ایک صحت مندانہ مسابقہ ہے جس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ شاعری کی کتابوں میں غزلوں کے ساتھ ساتھ چند نظموں کی پخ بھی لگا دی جاتی تھی‘ لیکن اب خالص نظموں کے مجموعے بھی آئے دن اشاعت پذیر ہو رہے ہیں جن میں عامر سہیل‘ اختر عثمان‘ اختر رضا سلیمی‘ فہیم شناس کاظمی اور مذکورہ بالا شعراء سمیت دیگر نظم نگاروں کے مجموعے بھی پچھلے دن اشاعت پذیر ہوئے ہیں جس سے ہمارا شعری ادب ایک نیا موڑ مڑتا دکھائی دیتا ہے۔ اب ’’زندہ ہے زندگی‘‘ کے نام سے احفاظ الرحمن کی نظموں کا مجموعہ منصۂ شہود پر آیا ہے جو تراجم اور بچوں کے لیے کتابوں سمیت کئی تصانیف کا کریڈٹ رکھتے ہیں۔ کتاب کے فلیپ سحر انصاری اور فہمیدہ ریاض کے قلم سے ہیں۔ فہمیدہ لکھتی ہیں: ’’احفاظ کی شاعری اپنے قاری کو اُس منظر کی گہرائیوں سے آشنا کرتی ہے جو دنیا کی تاریخ کے اس موڑ پر پاکستان سمیت استعمار سے نو آزاد سرزمینوں کے باسیوں کو آج درپیش ہے۔ احفاظ الرحمن کی شاعری‘ زیر نظر مجموعے کی نظمیں‘ جو بہت خوبصورت مصرعوں سے مزین ہیں۔ اردو شاعری کی جدید روایات سے پھوٹی ہیں۔ مجھے احفاظ کی شاعری میں فیض احمد فیض اور اختر الایمان کی شعری روایات کا ایک بالکل انوکھا امتزاج نظر آیا…‘‘ اب اس کی دو خوبصورت نظمیں: تیسرا درجہ: تیسرے درجے کا شہری… تیسرے درجے میں کرتا ہے سفر… زندگی کے تیسرے درجے میں کرتا ہے سفر… ٹوٹی پھوٹی چپلیں‘ میلا کچیلا پیرہن… تیسرے درجے کی روٹی… تیسرے درجے کا پیٹ… آنسو پیتے‘ کانٹے کھاتے زرد رُو بچوں کا ساتھ… تیسرے درجے کا جیون‘ تیسرے درجے کی موت… اُجلے چہروں‘ اونچے محلوں‘ اونچی دیواروں کے بیچ… قہقہوں کی جگمگاتی محترم دنیا کے بیچ… جگمگاتے سازوساماں سے سجے خوش رنگ بازاروں کے بیچ… تیسرے درجے کا شہری… زندگی کے تیسرے درجے میں کرتا ہے سفر… تیسرے درجے کا جیون‘ تیسرے درجے کی موت۔ چلو دیکھیں: چلو دیکھیں… چلو گُلکار ہاتھوں میں… محبت کی مہکتی آرزوئوں کا چمن دیکھیں… چلو زرخیز لوگوں میں… دمکتی‘ مسکراتی زندگی کا خواب بُننے کی لگن دیکھیں… ذرا اپنے کنوئیں بھر آسماں سے ماسوا دیکھیں… انہیں دیکھیں جو مجبوروں کی مجبوری پہ دل افگار رہتے ہیں… عناد و جبر و استبداد کو ٹھوکر میں رکھتے ہیں… جو بے تابانہ سڑکوں پر نکل کر… درد کی دولت لٹاتے ہیں… کشادہ قلب رکھتے ہیں‘ جنوں کا نام کرتے ہیں… ہم آئینہ فراموشوں کو آئینہ دکھاتے ہیں… چلو اُن باعمل لوگوں سے جینے کا ہنر سیکھیں… درندوں کو زبون و خوار کرنے کا ہُنر سیکھیں… چلو اُن اجنبی لوگوں کو گلہائے محبت پیش کرتے ہیں… چلو تسلیم کرتے ہیں… ہمیں تو کھوکھلی بحثوں سے فرصت ہی نہیں ملتی… انہیں بس کام سے ہے کام‘ اور وہ کام کرتے ہیں… ہماری شان ہے آرام‘ ہم آرام کرتے ہیں۔ آج کا مطلع خود سے حسابِ خواب چُکانے تو دے مجھے میں ناگوار ہی سہی‘ جانے تو دے مجھے