عید کے بعد بڑے مگرمچھ شکنجے میں ہوں گے… حمزہ شہباز مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما میاں حمزہ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’عید کے بعد بڑے مگرمچھ شکنجے میں ہوں گے‘‘ تاہم یہ شکنجہ ذرا ڈھیلا ڈھالا ہی ہوگا کیونکہ سخت شکنجے اتفاق سے بازار میں دستیاب ہی نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ چونکہ غفور الرحیم ہے‘ اس لیے ناقص تفتیش اور کمزور پراسیکیوشن کی بدولت اللہ تعالیٰ خطائیں معاف بھی کر سکتے ہیں اور یہ مرحلہ انشاء اللہ جلد از جلد ہی طے ہو جائے گا کیونکہ ہمارا وقت بے حد قیمتی ہے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مقدمے بازی میں پڑ کر آپس کے تعلقات خراب نہ کیے جائیں کیونکہ اس صورت میں حکومت کی باری بھی آ سکتی ہے اور بندہ بشر ہونے کی وجہ سے ہم بھی خطا کے پُتلے ہیں جبکہ بندہ چونکہ نائب ِخدا ہے اس لیے اسے بھی زیادہ سے زیادہ ستار العیوب ہونا چاہیے؛ چنانچہ امید ہے کہ کوئی وقت ضائع کیے بغیر سبھی نہائے دھوئے گھوڑے ہو جائیں گے اور اسی طرح چرتے چُگتے رہیں گے کہ کفرانِ نعمت کسی صورت بھی نہیں کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز ملتان میں پارٹی کارکنوں سے ملاقات کر رہے تھے۔ مسائل جنگ سے نہیں‘ مذاکرات ہی کے ذریعے حل ہوتے ہیں… گیلانی سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ’’مسائل جنگ سے نہیں‘ مذاکرات ہی کے ذریعے حل ہوتے ہیں‘‘ جبکہ ہم نے اپنے مسائل ماشاء اللہ جنگ اور مذاکرات دونوں کے بغیر ہی حل کر لیے تھے جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ کوئی چاہے کچھ بھی کہتا رہے‘ اس پر کان نہ دھرو اور سر نیہوڑائے اپنا کام کرتے جائو جس سے برکت ہی برکت ہوتی ہے اور موجیں ہی موجیں۔ مزید یہ کہ گھر کا کوئی مرد بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہ رہے اور اس کارِ خیر میں حصہ بقدرِ جُثہ اپنا کردار ادا کرتا رہے جبکہ اتفاق میں ویسے بھی بڑی برکت ہوتی ہے اور نتائج بھی توقع سے بڑھ کر نکلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت کے پاس کئی چیزوں کا حل نہیں ہے‘‘ جبکہ ہمیں ماشاء اللہ ایک ہی چیز کا حل نکالنا آتا تھا جو ہم نے جی بھر کے نکالا اور اگر دوبارہ موقع ملا تو رہی سہی کسر بھی نکال دیں گے کیونکہ نئے پرانے مقدمات انشاء اللہ جلد رفع دفع ہو جائیں گے۔ آپ اگلے روز ملتان میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ متحدہ کے بغیر کراچی آپریشن کامیاب نہیں ہو سکتا… فاروق ستار متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزی رہنما فاروق ستار نے کہا ہے کہ ’’متحدہ کے بغیر کراچی آپریشن کامیاب نہیں ہو سکتا‘‘ کیونکہ کچھ لوگوں سے کہہ سن کر متحدہ ہی دہشت گردوں کی کارروائیوں میں کمی لا سکتی ہے کیونکہ دہشت گرد بھی آخر انسان ہیں اور تعلق داری سے ماورا وہ بھی نہیں ہیں اور آخر آدمی کسی کی بات تو مان ہی لیتا ہے۔ انہوں نے کہا ’’دہشت گردوں کے مراکز کسی سے پوشیدہ نہیں‘‘ حتیٰ کہ ہم سے بھی پوشیدہ نہیں لیکن ہم نے اپنی حکومت کے دوران انہیں اس لیے کچھ نہ کہا کہ آہستہ آہستہ وہ خود ہی ہدایت پا کر امن و آشتی اختیار کر لیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود ہدایت دینے والا ہے لیکن یہ لوگ اپنے کام میں مصروف ہی اتنے ہیں کہ انہیں ہدایت سننے کی بھی فرصت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی ہونی چاہیے‘‘ لیکن اتنی بھی بلا امتیاز نہ ہو کہ گھوڑے اور گدھے میں تمیز ہی نہ ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں سزا دی جا رہی ہے‘‘ حالانکہ کئی اور لوگ ہیں جنہیں کوئی سزا وغیرہ نہیں دی جا رہی۔ آپ اگلے روز لاہور ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ طالبان آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں… فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’طالبان آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں‘‘ اس لیے ان کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ آزادی کسے پسند نہیں ہے‘ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ ہم سے بھی آزاد ہونا چاہتے ہیں جو کہ نہایت زیادتی کی بات ہے کیونکہ ہم نے سیاست کے اس کاروبار میں جو اتنی مہارت حاصل کی ہے‘ اس کا کیا بنے گا‘ اگرچہ اس سے پہلے ہم بھی آزادی کی جنگ شروع کرنا چاہتے تھے لیکن پھر آزادی کا خیال بھی دل سے رفو چکر ہونے لگا کہ آزادی میں آخر رکھا ہی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’بغیر شرائط مذاکرات سے ہی ملک بہتری کی طرف بڑھ سکتا ہے‘‘ اس لیے حکومت کو کوئی شرط نہیں لگانی چاہیے جبکہ طالبان کی معمولی شرائط کو تسلیم بھی کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میز پر بیٹھنے سے بہتری کے کئی راستے نکل سکتے ہیں‘‘ اور میز سے میری مراد وہ میز ہے جس کے ارد گرد کرسیاں بھی رکھی ہوں کیونکہ اتنے سارے زعما کے میز پر بیٹھنے سے میز ٹوٹ بھی سکتا ہے جس سے مذاکرات کا سارا مزہ ہی کرکرا ہو سکتا ہے جبکہ میز توڑنے کے لیے خاکسار ہی کافی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پارٹی رہنمائوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ نفسانی خواہشات کے خلاف بند باندھنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے… طاہر القادری شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا ہے کہ ’’نفسانی خواہشات کے خلاف بند باندھنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے‘‘ حالانکہ یہ بہت مشکل کام ہے کیونکہ سالہاسال ملک سے باہر رہ کر اقتدار کے لالچ سے بڑھ کر نفسانی خواہش اور کیا ہو سکتی ہے‘ اور اگر یہ کوئی آسان کام ہوتا تو خاکسار خود ہی کر لیتا؛ چنانچہ اب یہ ارادہ ہی ترک کردیا ہے کہ اور جو اتنی نیکیاں اِدھر اُدھر کرتا پھرتا ہوں‘ ایک یہ فریضہ ادا نہ بھی ہوا تو کون سی قیامت آ جائے گی کیونکہ بند باندھنا ویسے بھی فوج کا کام ہے جو سیلابوں کے دوران پانی کے آگے باندھتی ہے۔ اکیلا بندہ بشر اس سلسلے میں کیا کر سکتا ہے کیونکہ جو کام میں کر رہا ہوں وہ پہلے ہی اکیلے آدمی کا کام نہیں ہے اور اسی لیے جماعت بھی اب تک کھڑی نہیں کر سکا ہوں کہ لوگ پہلے ہی ٹھنڈے یخ دھرنے سے ڈرے ہوئے ہیں۔ اللہ معاف کرے! انہوں نے کہا کہ ’’عید الاضحی معاشرے کے استحصال زدہ طبقے کو خوشیوں میں شریک کرنے کا درس دیتی ہے‘‘ حالانکہ میرا اپنا دیا ہوا درس ہی کافی ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں عوام کے لیے عید کا پیغام جاری کر رہے تھے۔ آج کا مطلع کرتا ہوں اندھیرے کو اندھیرے سے زیادہ یوں روشنی لکھتا ہوں سویرے سے زیادہ