قومی مفاد میں تمام ادارے میرے ساتھ ہیں… نوازشریف وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’تمام ادارے قومی مفاد میں میرے ساتھ ہیں‘‘ ویسے بھی ایک عرصے سے ملک میں سب کچھ قومی مفاد میں ہی کیا جا رہا ہے جس کی بنیاد جنرل مشرف نے اپنے دستِ مبارک سے رکھی اور پھر چل سو چل‘ حتیٰ کہ طالبان حضرات بھی سب کچھ قومی مفاد ہی میں کر رہے ہیں جس کا ہم احترام کرتے ہیں لیکن وہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی بڑھ چلا ہے‘ قوم جس کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ اس افراط و تفریط سے اس کا ہاضمہ خراب ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اوباما سے کھل کر بات کروں گا‘‘ لیکن کوشش رہے گی کہ کچھ زیادہ ہی نہ کھل جائوں کیونکہ اس صورت میں مجھے سمیٹنا اور جوڑنا بھی پڑے گا اور میں نہیں چاہتا کہ پرائے ملک میں اتنا کھلارا ڈال کر بیٹھ جائوں‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان کی اصل طاقت جمہوریت ہے‘‘ خاص طور پر جس طرح کی جمہوریت ہم نے اختیار کر رکھی ہے جو ہم عوامی نمائندوں کو اتنی طاقت مہیا کرتی ہے جسے دیکھ دیکھ کر عوام اتنے خوش ہوتے ہیں کہ اپنے مسائل اور مصائب انہیں یاد ہی نہیں رہتے۔ آپ اگلے روز امریکہ روانگی سے قبل گفتگو کر رہے تھے۔ عوام کی خدمت کے بغیر ملک اور سیاست نہیں چل سکتے… بلاول پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ’’عوام کی خدمت کے بغیر سیاست اور ملک نہیں چل سکتا‘‘ جبکہ اس خدمت کا بہترین نمونہ حالیہ دور میں دونوں سابق وزرائے ا عظم‘ رحمن ملک‘ فردوس عاشق اعوان اور منظور وٹو وغیرہ پیش کر چکے ہیں جو تاریخ کی کتابوں میں سنہری حروف سے درج کیا جائے گا بشرطیکہ رہی سہی کسر نہ نکل گئی؛ چنانچہ عوامی خدمت کے بغیر نہ تو کروڑوں روپے لگا کر اسمبلی کی سیٹ جیتی جا سکتی ہے اور نہ بیرون ملک جائیداد وغیرہ بنائی جا سکتی ہے مبادا بیرون ملک لوگ یہ کہنا شروع کردیں کہ یہ فُقرے کہاں سے آ گئے ہیں جبکہ یہ تگ و دو بھی ملک کا وقار بڑھانے کے لیے کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘ اور ساری طاقت چُوس لیے جانے کے بعد یہ لاغر اور نحیف و نزار ہو کر رہ جاتے ہیں اور اپنی قسمت پر شاکر۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے ہمیشہ عوام کے حقوق کی جدوجہد کی ہے‘‘ جو اگرچہ صرف ہمارے ہی کام آتی رہی ہے کیونکہ اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ عوام کے نمائندوں کو حقوق مل جائیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں عید ملن پارٹی سے خطاب کر رہے تھے۔ پاکستان کو فی الوقت بُلٹ ٹرین کی ضرورت نہیں ہے… سعد رفیق وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے کہا ہے کہ ’’پاکستان کو فی الوقت بُلٹ ٹرین کی ضرورت نہیں ہے‘‘ کیونکہ ملک عزیز میں پہلے ہی بُلٹ اس کثرت سے چل رہی ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی‘ تو اس صورت میں بُلٹ ٹرین کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ بُلٹ ٹرین پر اتنا پیسہ خرچ آتا ہے‘‘ کیونکہ میں اپنے ڈیری فارم والے منصوبے پر ہی اس قدر مصروف تھا جس کے شاخسانے میں ایک سابق فیڈرل سیکرٹری اندر ہوتے ہوتے بچا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ریلوے کی نجکاری نہیں ہو رہی‘‘ کیونکہ اس نے اگر بالآخر بند ہی ہو جانا ہے تو نجکاری کر کے شریف آدمیوں کو خواہ مخواہ پریشان کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں جب سارا ملک ہی نجکاری کے لیے موجود ہے تو ریلوے سے درگزر بھی کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ریلوے کو دو سال میں بہتر نہ کر سکا تو مجھے استعفیٰ دینا ہوگا‘‘ اور اگر بلور صاحب کی طرح اپنے آپ کو ہی بہتر کر سکا تو یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں ہوگی۔ آپ اگلے روز کراچی سے ایک نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔ تعلیم کے فروغ سے انتہا پسندانہ رجحانات ختم کیے جا سکتے ہیں… شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’تعلیم کے فروغ سے انتہا پسندانہ رجحانات ختم کیے جا سکتے ہیں‘‘ لیکن ہم صوفیائے کرام کے فرمودات یعنی ’علموں بس کریں او یار‘ پر عمل کر کے ملک میں تصوف کا بول بالا کرنا چاہتے ہیں اور تعلیم پر ملک بھر میں جی ڈی پی کا 2 فیصد بھی خرچ نہیں ہو پاتا جبکہ 20 فیصد استاد حضرات سکول سے غیر حاضر رہتے ہیں اور ملک میں دو کروڑ بچے سکول جانے کی بجائے آوارہ گردی میں مشغول رہتے ہیں جبکہ بھوت سکولوں کی کثرت اس کے علاوہ ہے۔ اس صورت میں اس شعبے میں کیا پیش رفت کی جا سکتی ہے اور انتہا پسندانہ رجحانات پر کیونکر قابو پایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’قیام امن سے بڑھ کر ہماری نظر میں کچھ نہیں‘‘ چنانچہ طالبان کی منت سماجت کر کے کم از کم پنجاب کو ذرا محفوظ رکھا ہوا ہے جس سے ہماری ترجیحات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں سکاٹ لینڈ کے وزیر خارجہ اور ترک سفیر کی سربراہی میں وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔ طالبان کا دفتر ہو تو مذاکرات میں آسانی ہوگی… عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’اگر طالبان کا دفتر ہو تو مذاکرات میں آسانی ہوگی‘‘ جو شمالی وزیرستان میں قائم کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہاں پر حکومت کی رٹ تو پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہے اور ایسے دشوار گزار علاقے کو ہم نے کرنا بھی کیا ہے اور اگر اس کے بدلے طالبان راضی ہو سکتے ہیں تو اسے غنیمت سمجھنا چاہیے‘ بجائے اس کے کہ وہ سارے ملک ہی کا مطالبہ شروع کردیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں بزدل کہنے والے بتائیں کہ 9 سال سے جاری جنگ میں کامیابی کیوں نہ ملی‘‘ اگرچہ یہ ہمیں خود بھی معلوم ہے لیکن آخر پوچھنے میں کیا ہرج ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’امن کو موقعہ ملنا چاہیے‘‘ کیونکہ اگر ہم سب ہی موقعہ پرست واقع ہوئے ہیں تو امن کیوں ایسا نہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ’’جنگ کی خواہش رکھنے والے ہی بزدلی کا طعنہ دے رہے ہیں‘‘ حالانکہ بزدلی کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا‘ آزمائش شرط ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’دہشت گردی کے معاملے میں وزیراعظم کو خود آگے بڑھ کر لیڈ کرنا چاہیے‘‘ ورنہ مجبوراً خاکسار کو آگے آنا پڑے گا۔ آپ اگلے روز ڈی آئی خان میں اسرار اللہ گنڈاپور کے لواحقین سے تعزیت کر رہے تھے۔ آج کا مقطع اب اس سے کیا کہیں کہ محبت میں ہیں‘ ظفرؔ ملتا رہا تو خود ہی کبھی جان جائے گا