طالبان سے مذاکرات بارے تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیں… نوازشریف وزیراعظم میاں نوازشریف نے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو ہدایت کی ہے کہ ’’طالبان سے مذاکرات بارے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیں‘‘ اگرچہ سب کی سب جماعتیں اے پی سی کے دوران پہلے ہی اعتماد کا اظہار کر چکی ہیں لیکن دوبارہ اعتماد میں لینا اس لیے بھی ضروری ہے کہ مذاکرات میں جو تاخیر ہو رہی ہے اس کا کوئی جواز پیدا کیا جا سکے اور دوسرے یہ کہ نہ صرف امریکہ ان مذاکرات کے حق میں نہیں ہے اور بطورِ خاص یہ کہ ابھی تک یہی پتہ نہیں چل رہا کہ یہ مذاکرات کرنے کس کے ساتھ ہیں اور اگر یہ کامیاب نہ ہوئے تو پھر کیا کریں گے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’امن و سلامتی کے بغیر اقتصادی خوشحالی ممکن نہیں‘‘ جبکہ سیاسی لیڈر حضرات کی اقتصادی خوشحالی تو ہرگز ممکن نہیں کیونکہ پہلے بھی ساری خوش حالیاں امن و امان کی بدولت ہی حاصل ہوئی ہیں جو ملک کے اندر کم اور باہر زیادہ بہار دکھا رہی ہیں‘ ماشاء اللہ چشم بددور! آپ اگلے روز اسلام آباد میں چودھری نثار‘ سیکرٹری قانون اور ایئرچیف مارشل سے ملاقات کر رہے تھے۔ بزدل عمران والد کو ٹین پرسنٹ اور مجھے بچہ کہتے ہیں… بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ’’بزدل عمران والد کو ٹین پرسنٹ اور مجھے بچہ کہتے ہیں‘‘ حالانکہ وہ ماشاء اللہ سینٹ پرسنٹ ہیں اور کسی کے درجے کا گھٹانا نہایت نامناسب بات ہے۔ علاوہ ازیں یہ بہت بڑی بے ادبی بھی ہے جبکہ بزرگی عقل سے ہوتی ہے‘ سال سے نہیں‘ نیز والد صاحب کی ساری عقل مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے جو نوازشریف کو قدم بڑھائو کہتے ہیں اور مجھے دوسرے کام پر لگا رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’عمران خان شریف برادران کو بھی ڈینگی برادران کہتے ہیں‘‘ جو کہ کافی حد تک ٹھیک ہے‘ اگرچہ ڈینگی برادران کے علاوہ بھی انہیں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے‘ جبکہ ہم نے گزشتہ پانچ برسوں میں قوم کو جس مرض میں مبتلا رکھا ہے وہ ڈینگی سے زیادہ خطرناک تھا اور سابق وزرائے اعظم اور دیگر جملہ معززین والد صاحب کا ریکارڈ بھی توڑ رہے تھے کیونکہ یہ ترقی کا زمانہ ہے؛ چنانچہ ایسی صحت مندانہ مسابقت جاری رہنی چاہیے کیونکہ قومیں اسی طرح ترقی سے ہمکنار ہوا کرتی ہیں۔ آپ اگلے روز ٹویٹر پر ایک پیغام جاری کر رہے تھے۔ عمران خان اور بلاول قوم کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں… شیخ رشید عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ’’عمران خان اور بلاول قوم کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں‘‘ اور جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو اس سے بڑا مذاق اور کیا ہوگا کہ اپوزیشن لیڈر بننے کا اشارہ تو مجھے دیا گیا لیکن اب خود امیدوار بن بیٹھے ہیں جبکہ خاکسار یہ عہدہ قبول کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار بھی کر چکا تھا‘ تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو۔ جبکہ بلاول بھٹو زرداری کا اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے کہ والد گرامی کو دس پرسنٹ تک محدود کر رہے ہیں جبکہ صاحبِ موصوف کو کم از کم دو سو پرسنٹ کہا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ بیان بازی میں وقت گزار دیا جائے‘‘ جبکہ میں بھی اخبارات اور ٹی وی پر بیان بازی اسی لیے کرتا ہوں لیکن یہ ملک ہی عجیب ہے کہ ہر بات کا متحمل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’تبدیلی کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ نکلنے کو تیار ہوں‘‘ چنانچہ صاحبِ موصوف بھی خبردار رہیں کیونکہ میری ہر بات اور ہر کام کا الٹا ہی اثر ہوا کرتا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں عوامی تحریک کے ایک وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔ حمایت مطلوب ہے…! ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہٰذا تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ تحفظ پاکستان آرڈی ننس کی حمایت کر کے مشکور ہونے کا موقع دیں جبکہ معلومات تک رسائی کے قانون پر بھی میڈیا سے تجویز طلب کرنے کا ارادہ ہے کیونکہ ہم ہر بات پر عوام سے مشورہ اور تجاویز لینے پر کاربند ہیں جس دوران کافی وقت بھی گزر جائے گا اور ہمیں بھی زیادہ سر کھپائی نہیں کرنا پڑے گی جبکہ ہم دیگر مفید کاموں میں بھی بُری طرح سے مصروف ہیں جس کا قوم کو ابھی اندازہ نہیں ہے اور سارے معاملات ہمارے رخصت ہونے کے بعد ہی منظر عام پر آئیں گے اگرچہ ہمارا طریقِ کار اور کاریگری ماشاء اللہ ایسی ہے کہ جملہ کارہائے خفیہ کا کوئی بھی نشان نہیں چھوڑا جاتا‘ یعنی ہینگ اور پھٹکڑی بھی نہیں لگتی اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے۔ اس لیے ہماری گونا گوں مصروفیات کے پیش نظر جملہ سیاسی و غیر سیاسی عناصر سے امید کی جاتی ہے کہ وہ آزمائش کی اس گھڑی میں نہ صرف تجاویز اور مشوروں کی صورت میں کھل کر تعاون کریں گے بلکہ ہماری کامیابی کے لیے دعاگو بھی رہیں گے۔ المشتہر: خادمِ اعظم اطلاع عام ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہٰذا عوام الناس کو مطلع کیا جاتا ہے کہ خاکسار کے دورۂ امریکہ کی کامیابی کے بارے میں جملہ شکوک و شبہات دل سے رفع کردیں کیونکہ اس کے اثرات پانچ سال بعد ہی محسوس ہوں گے جبکہ ایسے معاملات آہستہ آہستہ ہی اپنا رنگ دکھاتے ہیں اور عوام کو میرے سرخ قالین استقبال سے بھی کچھ اندازہ لگا لینا چاہیے کہ میرا دورہ کس قدر اہمیت کا حامل ہے اور میرے خلوص کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ میں جملہ پروٹوکول تقاضوں کو خیرباد کہتے ہوئے خود کیری صاحب سے ملنے کے لیے چلا گیا حالانکہ بعض شرپسندوں کے خیال میں انہیں خود چل کر میرے پاس آنا چاہیے تھا لیکن میں سادگی پسند آدمی ہوں جبکہ کئی حاسد لوگ ہمارے اطوار کو شاہانہ بھی قرار دے رہے ہیں حالانکہ یہ بھی سادگی ہی کی ایک قسم ہے جس کا مظاہرہ میں مستقبل میں بھی جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں‘ اللہ تعالیٰ توفیق ارزانی فرمائے‘ آمین ثمہ آمین! المشتہر: خادمِ اعظم ہمارے دوست شاعر اور کالم نگار اسلم گورداسپوری علیل ہیں۔ ان کے لیے دعائے صحت کی اپیل ہے۔ آج کا مقطع ظفرؔ، میں شہر میں آ تو گیا ہوں مری خصلت بیابانی رہے گی