مذاکرات ترجیح ہیں‘ کوئی دبائو قبول نہیں کریں گے… نوازشریف وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’طالبان سے مذاکرات ہماری ترجیح ہیں‘ کوئی دبائو قبول نہیں کریں گے‘‘ اور مذاکرات اگر شروع ہی نہیں ہو رہے تو دبائو ڈالنے والوں کے لیے یہی کافی ہونا چاہیے کیونکہ اس تاخیر در تاخیر کے ہوتے ہوئے انہیں دبائو ڈالنے کی ضرورت ہی کیا ہے جبکہ جلد بازی شیطان کا کام ہے اور ہم ’’سہج پکے سو میٹھا ہو‘‘ پر یقین رکھتے ہیں اور اس سہج پکنے میں کافی طویل عرصہ بھی لگ سکتا ہے کیونکہ مذاکرات کی دال گلنے میں دیر بھی لگ سکتی ہے‘ البتہ ہم نے جو سیاسی جماعتوں سے اس سلسلے میں رابطے کرنے کو کہا ہے کہ تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ کیا وہ اپنے موقف پر قائم ہیں اور انہوں نے کوئی مذاق وغیرہ تو نہیں کیا تھا؛ چنانچہ اس سلسلے میں ان سے شاید بیان حلفی بھی طلب کیے جائیں‘ مبادا بعد میں وہ مُکر ہی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اے پی سی فیصلوں پر عمل درآمد یقینی بنائیں گے‘‘ چاہے وہ جب بھی ہو سکے۔ آپ اگلے روز مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کر رہے تھے جس میں ان کی جماعت کو کابینہ میں جگہ دینے کی یقین دہانی بھی حسبِ معمول کرائی گئی تھی۔ بلدیاتی انتخاب میں کامیابی کے لیے حکمت عملی بنا لی ہے… گیلانی سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ’’بلدیاتی انتخاب میں کامیابی کے لیے حکمت عملی بنا لی ہے‘‘ جیسا کہ ہم نے اپنے دور میں عوام کی خدمت کے بارے میں حکمت عملی بنائی تھی جس میں گھر کا ہر فرد شامل تھا اور جو مکمل طور پر کامیاب رہی تھی ،اگرچہ عا م انتخابات میں اس کا اثر اُلٹا ہی پڑا جبکہ ہم سمجھتے تھے کہ عوام کا حافظہ بہت کمزور ہوتا ہے لیکن انہوں نے ان خدمات کی ایک ایک تفصیل یاد رکھی ہوئی تھی جس سے زیادہ حیران کن بات اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ’’کارکن پارٹی کا اثاثہ ہیں‘‘ اگرچہ یہ بات کسی الیکشن کے دنوں میں ہی یاد آتی ہے جبکہ یادداشت پر کسی کا کوئی اختیار نہیں ہے، نیز عوام کا حافظہ تو بادام وغیرہ کھانے سے تیز ہو گیا ہے حالانکہ بادام اتنے مہنگے ہیں کہ ہم تو عیاشی افورڈ ہی نہیں کرسکتے کہ عوام کی خدمت کر کر کے ہی بالکل پھانک ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’کارکنوں کو ساتھ لے کر چلیں گے‘‘ اس لیے ان کی تلاش جاری ہے تاکہ انہیں سمجھا بُجھا کر راہ پر لایا جا سکے جبکہ الیکشن کے بعد وہ مرضی کے مالک ہوں گے اور جہاں بھی رہیں‘ خوش رہیں۔ آپ اگلے روز ملتان میں شہریوںسے گفتگو کر رہے تھے۔ غیر جماعتی الیکشن کے خلاف تحریک چلائیں گے… وٹو پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خان وٹو نے کہا ہے کہ ’’غیر جماعتی الیکشن کے خلاف تحریک چلائیں گے‘‘ اور میرے جیسا نیک نام آدمی اگر تحریک چلائے تو اس کی کامیابی میں کیا شبہ ہو سکتا ہے اور اگر سید یوسف رضا گیلانی جیسا پاک صاف اور بے داغ لیڈر بھی میرے ساتھ شامل ہو جائے تو سونے پر سہاگہ ہو جائے کیونکہ ہم سب نے گزشتہ دور میں یہ نیک نامی ہی تو کمائی ہے تاکہ عوام میں بھی سرخرو رہیں اور عاقبت کا بھلا بھی ہو جائے‘ اللہ تعالیٰ ہماری طرح ہر شخص کو نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین ثم آمین! انہوں نے کہا کہ ’’لاہور میں نئی حلقہ بندیوں کا جواز نہیں‘‘ اگرچہ سابق حلقہ بندیوں کے ہوتے ہوئے بھی ہمیں اپنے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں ہے کیونکہ حالیہ عام انتخابات کے دوران بھی ہمارے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں ہوا‘ خیر کوئی بات نہیں‘ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو آزمائش میں ڈالتے ہی رہتے ہیں جبکہ ہماری عبادات بھی کسی لالچ کے تحت نہیں تھیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ 11 مئی جیسا کرپٹ الیکشن نہیں ہونے دیں گے… عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’11 مئی جیسا کرپٹ الیکشن نہیں ہونے دیں گے‘‘ البتہ کسی اور کرپٹ الیکشن جیسا ہو تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ قوم تبدیلی کے ساتھ ساتھ ورائٹی بھی چاہتی ہے؛ چنانچہ تبدیلی تو میرے اعلان کے مطابق کافی حد تک آ چکی ہے‘ صرف ورائٹی کی کسر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت قبلہ درست کرے ورنہ لانگ مارچ کے لیے تیار ہو جائے‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت بھی ہمارے ساتھ لانگ مارچ میں شامل ہونے کے لیے تیار ہو جائے کیونکہ حکومت نے خود کہہ رکھا ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملک میں مہنگائی کا طوفان آ چکا ہے‘‘ اور اسے بھی سونامی ہی سمجھنا چاہیے کیونکہ سونامی اگر آتا تو اس نے بھی یہی کچھ کرنا تھا اور ماشاء اللہ ساری قوم ہی سیلاب زدگان میں شامل ہو جاتی۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر مہنگائی پر قابو نہ پایا گیا تو عوام سڑکوں پر آ جائیں گے‘‘ اور آمدورفت کے لیے حکومت کو دیگر ذرائع استعمال کرنا پڑیں گے ورنہ لوگ ریل کی پٹڑی پر چلنے پر مجبور ہوں گے اور ریل گاڑیاں بھی رُک جائیں گی۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔ ڈرون کے معاملے پر امریکہ کے خلاف دبائو بڑھ رہا ہے… پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ’’قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے خلاف امریکہ پر دبائو بڑھ رہا ہے‘‘ اول تو وزیراعظم صاحب نے جو دبائو ڈالا‘ امریکہ اُسی کے بوجھ تلے بُری طرح کراہ رہا ہے اور مزید کسی دبائو کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ صاحب موصوف نے صدر اوباما کے ساتھ اپنا پورا وزن ڈال کر بات کی تھی اور وہ بھی کھانا کھانے کے بعد‘ جس سے وزن میں ماشاء اللہ مزید اضافہ ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’عالمی دبائو کے باوجود پاک ایران گیس منصوبہ جاری رکھیں گے‘‘ تاوقتیکہ امریکہ ہم پر پابندیاں عائد نہ کردے جس کے بعد اس معاملے پر دوبارہ غور کریں گے جبکہ غورو خوض کا سارا کام مختلف وزارتوں کے ساتھ ساتھ وزیراعظم نے خود ہی سنبھال رکھا ہے؛ چنانچہ صدر اوباما پر اس اضافی وزن کا دبائو بھی پڑا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ’’غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے‘‘ اس لیے معروف سیاستدانوں کا سرمایہ باہر سے واپس لانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ آج کا مطلع نظر کو چھوڑیئے‘ صرفِ نظر ہی ممکن ہے قیام کر نہیں سکتے‘ سفر ہی ممکن ہے