دولت کی غیر مساوی تقسیم ختم کرنا ہوگی… نوازشریف وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’دولت کی غیر مساوی تقسیم ختم کرنا ہوگی‘‘ جو کہ سارے فساد کی جڑ ہے؛ چنانچہ اسے اس طرح بھی ختم کیا جا سکتا ہے کہ میں اور زرداری صاحب اپنی اپنی دولت برابر برابر تقسیم کر لیں اور جس کی جتنی دولت زیادہ ہو وہ اسے اپنے بچوں کے نام لگوا دے کیونکہ خیرات ہمیشہ گھر سے شروع ہونی چاہیے جبکہ جس ملک میں بھی امداد وغیرہ کے لیے جاتے ہیں وہ یہی طعنہ دیتا ہے کہ پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرو اور اس طرح ہم دونوں کا گھر ٹھیک ہو گیا تو سمجھیے کہ سارا پاکستان ہی ٹھیک ہو گیا کیونکہ ہاتھی کے پائوں میں ہی سب کا پائوں ہوتا ہے‘ بلکہ ہمارے بچوں کو بھی اپنی دولت آپس میں برابر تقسیم کرنا ہوگی تاکہ مکمل مساوات قائم ہو جائے اور یہ بنائے فساد ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے اور ہم طعنے دینے والی دنیا کے سامنے بھی سرخرو ہو جائیں‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز لندن میں عالمی اسلامی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ پاکستان خطے کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے… فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’پاکستان خطے کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے‘‘ جو کہ خاکسار کی سرگرمیوں سے صاف ظاہر ہے لیکن حکومت اس کا کوئی نوٹس نہیں لے رہی بلکہ مسلسل وعدۂ فردا پر ٹال رہی ہے حالانکہ اگر امیر مقام جیسے بھاری بھر کم شخص کو مشیر بنایا جا سکتا ہے تو ہمارے چند ہلکے پھلکے ارکان کی طرف دستِ کرم دراز کرنے میں کیا رکاوٹ ہو سکتی ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمیں اس طرح ملک و قوم کی خدمت کرنے سے مسلسل محروم رکھا جا رہا ہے جس سے ہماری صحت پر ناگوار اثرات مرتب ہو رہے ہیں حتیٰ کہ پچھلے دو ماہ میں خاکسار کا اس فکر مندی سے دس کلو وزن بڑھ گیا ہے اور چلنے پھرنے میں دِقّت محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’طالبان سے بات چیت کے ذریعے امن دنیا کے مفاد میں ہے‘‘ حتیٰ کہ خاکسار کے بھی عین مفاد میں ہے کیونکہ میں بھی اس سلسلے میں کافی بھاگ دوڑ کر رہا ہوں جس کے ثمر آور ہونے کے امکانات روز بروز روشن سے روشن تر ہوتے جا رہے ہیں‘ ماشاء اللہ! آپ اگلے روز اسلام آباد میں برطانوی وفد سے بات چیت کر رہے تھے۔ طالبان سے مذاکرات کے لیے ہوم ورک مکمل کر لیا ہے… چودھری نثار وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ’’طالبان سے مذاکرات کے لیے ہوم ورک مکمل کر لیا ہے‘‘ اگرچہ طالب علمی کے زمانے میں یہ کام کبھی نہ ہو سکا تھا اور ہمیشہ بنچ پر کھڑا ہونا پڑتا تھا اور اگر یہ ہوم ورک بھی کارگر ثابت نہ ہوا تو ممکن ہے کہ کرسیٔ وزارت پر بھی کھڑا ہونا پڑ جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مذاکرات جلد شروع ہو سکتے ہیں‘‘ یعنی یہ اُن کی مرضی پر منحصر ہیں کیونکہ اگر اب تک شروع نہیں ہو سکے تو آئندہ کے لیے بھی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ اس لیے قوم کو دعا کرنی چاہیے کہ یہ جلد شروع ہو جائیں جس کی دعائوں سے کامیاب ہو کر ہم ا قتدار میں آئے ہیں‘ اگرچہ الیکشن میں فرشتوں نے بھی بھرپور حصہ لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’گواہی کے متعلق قوانین کو مضبوط بنایا جائے گا‘‘ اور یہ کام ایک مضبوط حکومت ہی کر سکتی ہے جو کہ نہایت مضبوط طریقے سے منتخب ہو کر آئی ہے اور امید ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں بھی یہی طریقہ آزمایا جائے گا اور نتائج حسبِ توقع برآمد ہوں گے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں برطانوی وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔ حکومت ڈرون حملے نہیں رکوا سکتی تو مہنگائی پر ہی قابو پا لے… خورشید شاہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ’’حکومت ڈرون حملے نہیں رکوا سکتی تو مہنگائی پر ہی قابو پا لے‘‘ اگرچہ ہم بھی اپنے دور میں یہ دونوں کام کر سکتے تھے لیکن ہم دیگر قومی مسائل حل کرنے میں لگے ہوئے تھے جس سے سابق وزرائے اعظم کو نہ خود فرصت ملتی تھی اور نہ دوسروں کو کوئی اور کام کرنے دیتے تھے جنہیں اس احسان فراموش قوم نے یکسر فراموش کردیا اور حالیہ عام انتخابات میں ہم عاجز مسکینوں سے گن گن کر بدلے لیے جبکہ حضرت علیؓ کا یہ قول ان پر خوب صادق آیا ہے کہ جس کے ساتھ بھلائی کرو‘ اس کے شر سے بھی محفوظ رہو لیکن جملہ معززین نے برسات کے دنوں کے لیے جو دانہ دُنکا جمع کیا تھا اُس کی حفاظت میں ہی لگے رہے اور عوام کے شر سے محفوظ رہنے کی کوئی تدبیر نہ کر سکے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ خورشید رضوی ڈاکٹر خورشید رضوی کی ذاتِ والا صفات ہرگز کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ کلیات سمیت ان کی شاعری کے متعدد مجموعے شائع ہو کر اہلِ فن سے داد حاصل کر چکے ہیں۔ حال ہی میں ان کا تازہ مجموعۂ کلام ’’دیریاب‘‘ کے نام سے القا پبلی کیشنز نے خوبصورت اندازِ پیشکش کے ساتھ شائع کیا ہے جس کی قیمت 395 روپے رکھی گئی ہے۔ دیباچہ ڈاکٹر اسلم انصاری نے قلم بند کیا ہے جبکہ پسِ سرورق احمد ندیم قاسمی‘ ڈاکٹر وزیر آغا اور شہزاد احمد کی توصیفی آراء درج ہیں۔ اس میں غزلیں اور نظمیں شامل ہیں‘ ان کی غزلوں کے چند اشعار دیکھیے: کہاں سے لایئے خود کو کہ خود بھی دیکھ سکیں جب اپنے آپ سے گزرے تو رونما ہوئے ہم کبھی ہم بھی کسی کی بزم سے بسمل نکلتے تھے سراپا چشم جاتے تھے‘ سراپا دل نکلتے تھے خود اُس سے دور ہیں جس کا پتا بنے ہوئے ہیں یہی بہت ہے کہ ہم راستہ بنے ہوئے ہیں سرِ بریدہ کی صورت ہوا سے گر ہی نہ جائے گلاب شاخ پہ پھوٹا نہیں‘ رکھا ہوا ہے چمن کو میں نے کبھی پاس سے نہیں دیکھا کبھی قفس سے‘ کبھی آشیاں سے دیکھا ہے مجھے لطفِ پرواز سے کم نہیں پرندے کو پرواز میں دیکھنا ہوں وہ مہماں کہ پسِ پردہ تواضع ہے مری صاحبِ خانہ کبھی سامنے آتا ہی نہیں آج کا مطلع یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تُو نہ ملا