حکیم اللہ محسود کا قتل امن کی کوششوں کا قتل ہے…چودھری نثار وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے کہا ہے کہ ’’حکیم اللہ محسود کا قتل امن کی کوششوں کا قتل ہے‘‘ اگرچہ ہم نے بھی اس کے سر کی قیمت 5کروڑ روپے لگا رکھی تھی اور ویب سائٹ پر ہماری یہ پیشکش ابھی تک موجود تھی تاہم یہ بات باعث اطمینان ہے کہ امریکہ نے یہ کام خود کر کے ہمارا 5کروڑ روپیہ بچا دیا ہے جو ہماری گرتی ہوئی معیشت کے لیے ایک سہارے سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کریں گے‘‘ اور غورو خوض کے بعد ان کی مضبوطی میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ہمیں ایک ناکام ریاست بننے کا کچھ اتنا زیادہ شوق نہیں جو امریکہ کے لیے بائیں ہاتھ کا کرتب ہے۔ اگرچہ نیم ناکام ریاست ہم پہلے ہی بن چکے ہیں، اللہ معاف کرے، اور امریکہ اگر ہمیں طالبان سے لڑوانا ہی چاہتا ہے تو ہمیں مطلوبہ ہتھیار فراہم کرے جن کے بغیر ہم اس جنگ میں فتح یاب ہو ہی نہیں سکتے اور فی الحال امریکہ ہمارے بیانات کو سنجیدگی سے نہ لے کیونکہ یہ طالبان کے لیے ہیں، امریکہ کے لیے نہیں، امید ہے امریکہ سمجھ تو گیا ہو گا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ نیٹو سپلائی بند کر کے دکھائیں گے…عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’نیٹو سپلائی بند کر کے دکھائیں گے‘‘ چاہے وہ ایک آدھ دن کے لیے ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ہم امریکہ کی حمایت کر کے خود کو طالبان کے رحم و کرم پرنہیں چھوڑ سکتے، اگرچہ ان کی آئے دن کی کارروائیوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کے ہاں رحم کا خانہ بالکل ہی خالی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس وجہ سے ہماری حکومت جاتی ہے تو جائے‘‘ حالانکہ اپنی نقاہت اور لاغری کی وجہ سے وہ کہیں آنے جانے کے ویسے ہی قابل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نیٹو سپلائی کی بندش اور ڈرون حملے بند کرنے کے لیے قرار داد لائیں گے‘‘ اور اسمبلیوں کی قرار دادیں جس قدر موثر ہوتی ہیں، اس کا اندازہ اور علم تو سبھی کو ہے اس لیے ڈرون حملوں او ر نیٹو سپلائی کی بندش کے حوالے سے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سب کو معلوم ہو گیا کہ پاکستان میں امن کوششوں کو کون برباد کر رہا ہے‘‘ اور یہی بتانا میرا فرض تھا جو میں نے ادا کر دیا ہے، آگے طالبان جانیں اور حکومت۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ ڈرون حملوں سے مذاکرات کو ہلاک نہیں ہونے دیں گے…پرویز رشید وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ’’ڈرون حملوں سے مذاکرات کو ہلاک نہیں ہونے دیں گے‘‘ کیونکہ ابھی تو وہ شدید زخمی ہوئے ہیں اور انہیں ہسپتال داخل کرا دیا گیا ہے۔ تاہم زندگی اور موت چونکہ اللہ میاں کے اختیار میں ہے، اس لیے اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ’’کیا نیٹو سپلائی روکنے سے حملے بند ہو جائیں گے؟‘‘ اس لیے عمران خان کو اس قدر جوش و خروش دکھانے اور امریکہ سے ہمیں لڑوانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے جبکہ حکیم اللہ محسود بھی اگر مارا گیا ہے تو اس کی قسمت میں ہی ایسا لکھا تھا اور تقدیر کے لکھے کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا، اور امریکہ بھی حکم ربی ّ کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتا، کم از کم ہمارا عقیدہ تو یہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت مذاکرات کا عمل جاری رکھے گی‘‘ اور اگر طالبان اس پر راضی نہ ہوئے تو حکومت اپنے ساتھ ہی یہ مذاکرات کرتی رہے گی جس سے امریکہ بھی خوش رہے گااور طالبان بھی ، کیونکہ بھلائی کے کسی کام کو رْکنا نہیں چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آبادمیں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ حکیم اللہ کی ہلاکت نواز شریف کے دورۂ امریکہ کا تسلسل ہے… طاہر القادری شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ ’’حکیم اللہ محسود کی ہلاکت نواز شریف کے دورۂ امریکہ کا تسلسل ہے‘‘ لیکن افسوس کہ میرے دھرنے کا تسلسل کہیں نظر نہیں آ رہا جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ قوم مردہ ہو چکی ہے جسے زندہ کرنے کے لیے آخر کچھ کرنا ہی پڑے گا، اللہ تعالیٰ توفیق ارزانی فرمائے، آمین! انہوں نے کہا کہ ’’پرامن انقلاب کے لیے تیاریاں آدھے راستے میں ہیں‘‘ اور یہ آدھا راستہ ہی اس قدر مشکل اور دشوار گزار تھا کہ حیرت ہوتی ہے‘ اس نے یہ آدھا راستہ بھی کیسے طے کر لیا، اس کے لیے دوبارہ اندازہ لگانا پڑے گا کہ یہ آدھا راستہ بھی اس نے واقعی طے کیا ہے یا نہیں، یعنی کہیں ایسا نہ ہو کہ میں جماعت کھڑی کر دوں اور پوری قوم پرامن انقلاب سمیت پھسکڑا مار کر بیٹھی ہی رہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس کے لیے اچانک کال دیں گے‘‘ تاکہ قوم کو کپڑے بدلنے اور جوتے پہننے کی بھی فرصت نہ ملے اور جو ،جس حالت میں بھی ہو حیران و پریشان ہو کر اس کال پر لبیک کہتا ہوا بھاگا چلا آئے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی پروگرام میں عمران خان سے گفتگو کر رہے تھے۔ ڈینگی سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے… شہباز شریف خادم ِاعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ ’’ڈینگی سے ڈرنا نہیں ،لڑنا ہے‘‘ کیونکہ اب تک جو ڈینگی سے ڈرتے رہے ہیں تو اس سے اس کا دماغ کچھ زیادہ ہی خراب ہو گیا ہے اورلگاتار مریضوں کی موتیں واقع ہونا شروع ہوگئی ہیں کیونکہ پہلے تو یہی سوچا تھا کہ اس کے ساتھ جنگ کرنے کی بجائے مذاکرات کیے جائیں کیونکہ جنگ سے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا لیکن اب لگتا ہے کہ طالبان کی طرح ڈینگی سے بھی جنگ ہی کرنا پڑے گی کیونکہ طالبان سے مذاکرات کا مذاق تو اب ویسے ہی ختم ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ڈینگی سے لڑنے کے لیے ہر ادارے اور فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا‘‘ کیونکہ حکومت دیگر مفید کاموں میں ویسے ہی بہت مصروف ہے اور ،مواقع زندگی میں بار بار نہیں آتے، اور تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور اسی لیے ہم بھی سارا کچھ نہایت خوش اسلوبی اور خلوص کے ساتھ دہرا رہے ہیں اور کوشش ہے کہ اس دفعہ بھی کوئی کسر نہ رہ جائے۔ آپ اگلے روز لاہور میں انسداد ڈینگی مہم کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں خطاب کر رہے تھے۔ آج کا مقطع ہوں اپنے آپ سے ٹکرا کے پارہ پارہ،ظفر بکھر گیا ہوں فضا میں، جہاں تہاں ہوں میں