امریکہ پاکستانی حکمت عملی سے تعاون کرے:شہباز شریف خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’امریکہ دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہے تو پاکستان کی حکمت عملی سے تعاون کرے ‘‘ کیونکہ ہماری حکمت عملی بھی وہی ہے جو امریکہ کی ہے لیکن ہمارے سخت بیانات کا بْرا بھی نہ منائے کیونکہ ایک تو وہ طالبان کے لئے ہیں اور دوسرے ہم نے ان عوام اور فرشتوں کو بھی جواب دینا ہے جن کی تائید و تعاون سے ہم نے اقتدار حاصل کیا ہے۔ نیز ایک ارب ڈالر کی جو قسط باقی رہتی ہے وہ بھی امریکہ جلداز جلد ادا کرے جس کے لئے جملہ معززین چھریاں کلہاڑیاں تیز کئے بیٹھے ہیں جن کے گھر کا خرچہ بھی پورا نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے امریکی امداد پر تحفظات ظاہر کئے تھے‘‘ جس کی فراہمی اس قدر تاخیر سے کی جاتی ہے کہ اس کا سارا مزہ ہی کرکرا ہو جاتا ہے، اور، اسے اگر باقاعدہ اور بروقت ادا نہ کیا گیا تو ہمارے تحفظات برقرار رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہماری معیشت مسلسل دبائو میں ہے‘‘ اور امید ہے کہ امریکہ اس بیان کا مطلب سمجھ گیا ہو گا کیونکہ عقل مندوں کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ اگر وزیر اعظم ہوتا تو پاک فضائیہ کو ڈرون مار گرانے کا حکم دیتا:عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’اگر میں وزیر اعظم ہوتا تو پاک فضائیہ کو ڈرون مار گرانے کا حکم دیتا‘‘ اور اسی لئے امریکہ نے مجھے وزیر اعظم نہیں بننے دیا کیونکہ وہ میری طبیعت کو اچھی طرح جانتا ہے کہ میں ماشاء اللہ جذبات میں آ کرکچھ بھی کر سکتا ہوں اور سٹیج پر گر بھی سکتا ہوں، البتہ ابھی اس کا تعین نہیں ہو سکا کہ مجھے دھکاکس نے دیا تھا، مجھے تو اس شرارت میں بھی امریکہ ہی کا ہاتھ لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’تحریک انصاف نیٹو سپلائی روکنے کا فیصلہ نہ کرتی تو اسے چھوڑ دیتا‘‘ جبکہ پارٹی مجھے چھوڑنے پر بھی سنجیدگی سے غور کر رہی تھی کیونکہ میرا مشن پورا ہو چکا تھا یعنی جو تبدیلی میں لانا چاہتا تھا ، آ چکی تھی اور، اب نواز لیگ کو میری زیادہ ضرورت تھی کہ میری طرح وہ بھی تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ڈرون حملے نے ثابت کر دیا کہ امریکہ خطّے میں امن نہیں چاہتا ’’حالانکہ اس سے پہلے ثابت ہو چکا تھا کہ وہ خطے میں امن کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ اس لیے ملک کی سابق قیادت نے ایک ٹیلی فون کال پر سر تسلیم خم کر لیا تھا اور ہم امریکہ کی ہر طرح سے یعنی دامے درمے سخنے مدد کرتے رہے بلکہ اب تک کر رہے ہیں۔لیکن امریکہ ان خدمات کو خاطرمیں نہیں لاتا اور ڈرون حملے کیے جا رہا ہے۔ آپ اگلے دن لاہور میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔ نیٹو سپلائی پر عمران خان کا فیصلہ جذباتی ہے:خورشید شاہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ’’نیٹو سپلائی بند کرنے پر عمران خان کا فیصلہ جذباتی ہے‘‘ جبکہ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف شکنجہ کسنے کا حکومتی فیصلہ اس سے بھی زیادہ جذباتی ہے ، اگرچہ ایسے مقدمات کے بارے میں یہی طے ہوا تھا کہ یہ کارروائیاں متعلقہ حضرات کو عدالتوں سے باعزت بری کرانے کے لئے ہیں تاکہ روز روز کی یہ جھک جھک ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے، تاہم، حکومت کے ارادے کافی مشکوک لگتے ہیں ،لیکن وہ خاطر جمع رکھے کہ اگلی دفعہ ہماری باری بھی آنے والی ہے یعنی حکومت جو بوئے گی وہی کاٹے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ڈرون حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب مذاکرات ہونے والے تھے‘‘ اور ، ہو کر ناکام بھی ہونے والے تھے کیونکہ دراصل حکومت بھی کچھ وقت حاصل کرنا چاہتی تھی اور طالبان بھی، جبکہ موجودہ صورت میں دونوں کو کافی سے زیادہ وقت حاصل ہو گیا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ نیٹو سپلائی پر عمران خان کے فیصلے کی حمایت کریں گے:فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’نیٹو سپلائی روکنے کے بارے میں عمران خاں کے فیصلے کی حمایت کریں گے‘‘ کیونکہ اس طرح اس منحوس حکومت کے خاتمہ کا زیادہ ، اور جلدی امکان ہے کیونکہ یہ وفاقی حکومت کی پالیسی کے خلاف ہو گا اور حکومت کو صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کا سنہری موقع مل جائے گا اور ہینگ پھٹکڑی لگے بغیر ہی ہمارا کام بھی ہو جائے گا کیونکہ ہماری دیگر مساعی جمیلہ سے تو یہ حکومت جاتی نظر نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی کے پی اسمبلی میں نیٹو سپلائی روکنے کی قرار داد پیش کرے گی‘‘ تاکہ صوبائی حکومت کو موجودہ موقف سے پیچھے ہٹنے کا کوئی جواز ہی نہ ملے۔ اور، ہماری ان نیک کارروائیوں سے ن لیگ کا گورنر تعینات ہونے سے وفاقی حکومت کو جو سہولت حاصل ہو گی اس کے بدلے میں خاکسار کی ترجیحات پر ہمدردانہ غور کرنے میں حکومت کو بھی سہولت رہے گی کیونکہ سیاست کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس ہاتھ لے ،اس ہاتھ دے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ حکومت نے ڈرون حملوں کا کیس کمزور انداز میں لڑا:منظور وٹو پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد وٹو نے کہا ہے کہ ’’حکومت نے ڈرون حملوں کا کیس کمزور انداز میں لڑا‘‘ کیونکہ اگر ہم اسے لڑتے تو پوری طاقت کو بروئے کار لاتے جو ہم نے اپنے دور حکومت میں جملہ معززین سمیت حاصل کر لی تھی کیونکہ معاشی استحکام کے بغیر کوئی کام بھی خوش اسلوبی سے نہیں کیا جا سکتا، اگرچہ خدمت کر کرکے ہماری اپنی مالی حالت اس نوبت کو پہنچ چکی ہے کہ میرے سمیت راجہ اشرف پرویز ،رحمن ملک اور کئی دیگران نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے امداد حاصل کرنے کے لئے نام لکھوا دیا ہے اور امید ہے کہ ہماری یہ قربانیاں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی کہ کس طرح اپنے پیٹ کاٹ کاٹ کر ہم نے عوام کو خوشحال اور ملک کو مستحکم بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ’’کچھ قوتیں منصوبے کے تحت پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں‘‘ یعنی وہ استحکام جسے ہم نے خون پسینہ ایک کر کے فراہم کیا تھا۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ آج کا مقطع بچھوئوں کے شہر کا احوال مت پوچھو ظفر جس کی دْم پر ہاتھ رکھتا ہوں وہی سردار ہے