سمجھ نہیں آ رہی کہ ڈرون حملے کی اجازت کس نے دی… نواز شریف وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’سمجھ نہیں آ رہی کہ ڈرون حملے کی اجازت کس نے دی‘‘ کیونکہ اوباما صاحب تو اس کی اجازت دے نہیں سکتے کہ ابھی انہوں نے یہاں آ کر دال قیمہ بھی کھانا ہے جس کے ذکر پر ہی ان کے منہ میں پانی بھر آیا تھا اور وہ ٹپکتی ہوئی رال ہی کو بار بار پونچھتے اور صاف کرتے رہے تھے، چنانچہ وزیر داخلہ کو چاہئے کہ سارے کام چھوڑ کر اس بات کا پتہ چلائیں کہ یہ اجازت کس نے دی تھی تاکہ امریکی صدر سے کہہ کر اس بدبخت کو سزا وغیرہ دلوائی جا سکے اور انہیں یہ بھی بتایا جا سکے کہ ان کے ملک میں ان کی اجازت کے بغیر کیا کچھ ہو رہا ہے، اگرچہ ہمارے ہاں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے کہ اکثر کاموں کی مجھے بھی سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیسے ہو رہے ہیں اور ان کی اجازت کس نے دی ہے، ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’میں نے ڈرون حملوں پر دو ٹوک بات کی تھی‘‘ اگرچہ اوباما صاحب نے اس کے جواب میں صرف ایک ٹوک ہی بات کی تھی کہ شاید ان کے ہاں دو ٹوک بات کرنے کا رواج ہی نہیں ہے، عجیب ملک ہے! آپ اگلے روز ٹامیوالی میں جنگی مشقوں کے بعد خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ وہ ہم ہی تھے جنہوں نے امریکہ سے معافی منگوائی… گیلانی سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ’’وہ ہم ہی تھے جنہوں نے امریکہ سے معافی منگوائی‘‘ اگرچہ وہ ہلکی پھلکی معذرت ہی تھی جو کہ اس نے پہلے روز ہی کر دی تھی لیکن ہم اس پر ہی زور دیتے رہے کہ باقاعدہ معافی مانگیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے کے دیگر منصوبوں میں مصروف ہو گئے اور انہیں وہ بات یاد ہی نہ رہی اور ہم خود چونکہ عوام کی خدمت میں بری طرح مصروف تھے ، اور گھر کا کوئی فرد بھی بیکار نہ بیٹھتا تھا، اس لئے ہم بھی انہیں دوبارہ یاد نہ کروا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ’’نواز شریف نیٹو سپلائی کو کبھی بند نہیں کریں گے‘‘ جو کہ ہم نے کچھ مدت کے لئے بند کر کے دکھا دی تھی۔ لیکن جب امریکہ نے ادائیگیاں وغیرہ روک دیں تو ہمارے بھی ہوش ٹھکانے آگئے اور سپلائی دوبارہ جاری کر دی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ڈرون حملے کھلم کھلا ملکی سلامتی کے خلاف ہیں‘‘ جو اگرچہ ہمارے دور میں بھی لگاتار ہوتے رہے لیکن سب نے دیکھ لیا کہ اس وقت ملکی سلامتی کو کچھ بھی نہیں ہوا، ماسوائے میرا بوریا بستر گول ہونے کے۔ آپ اگلے روز ملتان ایئر پورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ زخموں پر مرہم لگانے کی ضرورت ہے، مسائل خود بخود حل ہوتے رہیں گے… ممنون حسین صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ ’’اس وقت زخموں پر مرہم لگانے کی ضرورت ہے ،مسائل خود بخود حل ہوتے رہیں گے‘‘ کیونکہ اس کے مسائل شروع سے ہی خود بخود حل ہوتے آئے ہیں اس لئے اہل اقتدار دیگر فلاحی کاموںمیں مصروف رہے کیونکہ یہ مملکت خدا داد ہے، اور‘ اس کے مسائل خدا وند تعالیٰ خود ہی حل کرتے رہتے ہیں جبکہ صدارت قبول کرنے سے لیت و لعل کرنے پر مجھ سے بھی یہی کہا گیا تھا کہ آپ کو ہماری طرح کچھ بھی نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ مسائل کو خود حل ہونے کی عادت پڑی ہوئی ہے؛ چنانچہ میں پورے اطمینان سے صدارت گُھکا رہا ہوں‘ اور میاں صاحبان حکومت۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نظارہ اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملکی ترقی میں حکومت کا کردار قابل تعریف ہے‘‘ اس لئے مسائل کی طرح میرا کردار بھی خود بخود قابلِ تعریف بنتا جا رہا ہے، اللہ تعالی نظر بد سے بچائے، یعنی چشم ِبد دور! آپ اگلے روز اسلام میں فاٹا ارکان پارلیمنٹ کے ایک وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔ امریکہ نے دشمنی دکھائی، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا ہو گی… عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’’امریکہ نے دشمنی دکھائی، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا ہو گی‘‘ اگرچہ یہ بہت مشکل کام ہے کہ پہلے اپنی آنکھیں نکلوائی جائیں اور پھرانہیں دشمن کی آنکھوں میں ڈال کر بات کرنا کوئی مذاق نہیں ہے کیونکہ اس سے فریقِ ثانی کی آنکھوں کا بھی کباڑا ہو سکتا ہے جبکہ خود بھی بینائی سے محروم ہونا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ڈرون حملوں کے مسئلے پر ایک قوم بن کر کھڑا ہونا ہو گا‘‘ جو ، اب تک تو ممکن نہیں ہو سکا؛ البتہ اب خاکسار کی قیادت میسر آنے پر ایک قوم بننا کافی آسان ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’قوم کو اختلافات کو ختم کرنا ہو گا‘‘ جو اب میری صورت میں ہی باقی رہ گئے ہیں کیونکہ باقی ساری سیاسی جماعتیں ایک طرف ہیں اور میں دوسری طرف۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر مذاکرات کے دوران حملہ ہوا تو نیٹو سپلائی بند کر دیں گے‘‘ البتہ موجودہ صورتِ حال کے پیش مذاکرات شروع ہی نہ ہو سکے اور ڈرون حملے ہوتے رہے تو سپلائی بند کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے۔ ڈینگی کو پہلے بھی شکست دی، اب بھی بھگائیں گے… شہباز شریف خادم اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کہا کہ ’’ڈینگی کو پہلے بھی شکست دی، اب بھی بھگائیں گے‘‘ اگرچہ ڈینگی مچھر کے بھاگنے میں کافی عرصہ لگتا ہے کیونکہ یہ تو اڑنے والا جانور ہے ، تاہم ہماری کوشش ہو گی کہ یہ ذرا تیز بھاگے۔ انہوں نے کہا ’’سمجھ نہیں آ رہی کہ ڈینگی سے اموات کس طرح ہوئیں‘‘ کیونکہ یہ تو معصوم سا پرندہ ہے، اور ۔ دوسرے یہ کہ یہ کاٹنے سے پہلے کان کے قریب آ کر باقاعدہ خبردار کرتا ہے اور جو لوگ اس کی اس وارننگ پر کان نہیں دھرتے، وہی اس بیماری میں مبتلا ہو کر نقصان اٹھاتے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اکثر لوگوں کے کان بھرے ہیں جو انہیں ڈینگی مچھر کی یہ وارننگ سنائی نہیں دیتی۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو انہیں کسی ماہر کن میلیے کی خدمات حاصل کر کے کان اچھی طرح صاف کروانا چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ڈینگی کے تدارک کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں‘‘ کیونکہ طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈالنے کے بعد اب ہم جنگی مصروفیات سے فارغ ہو جائیں گے۔ آپ اگلے روز لاہور میں مختلف اجلاسوں سے خطاب کر رہے تھے۔ ؎ آج کا مقطع یہ محبت وہ بیانِ حلفی ہے کہ ظفر جس میں افسانہ زیادہ تھا، حقیقت کم ہے