طالبان سے مذاکرات کے فیصلے پر قائم ہیں… نوازشریف وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’طالبان سے مذاکرات کے فیصلے پر قائم ہیں‘‘ اگرچہ انہوں نے ہمیں امریکہ کے غلام قرار دیتے ہوئے مذاکرات سے صاف انکار کردیا ہے لیکن ہم غلامی کی یہ زنجیریں توڑنے کا پختہ عزم رکھتے ہیں کیونکہ ماشاء اللہ ہر معاملے میں ہمارا عزم تو پختہ ہی ہوتا ہے‘ لیکن اس کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلتا جس میں ملک کے چیدہ چیدہ مسائل شامل ہیں جنہیں چٹکیوں میں حل کرنے کا ہم نے انتخابات سے پہلے عزم ظاہر کیا تھا لیکن ہمارے پاس اب وہ پختہ عزم ہی باقی رہ گیا ہے؛ چنانچہ اب طالبان کے نئے امیر سے ہی ہم نے اپنی پختہ امیدیں وابستہ کر لی ہیں کہ شاید وہ ہماری حالتِ زار پر رحم کھاتے ہوئے مذاکرات پر آمادہ ہو جائیں جنہیں وہ امیر المومنین کہتے ہیں‘ اور اگر وہ فی الحال خاکسار کو بھی امیر المومنین تسلیم کر لیں تو ہم بھی ایسا ہی کریں گے اور اس سے زیادہ منصفانہ فیصلہ کوئی اور ہو بھی نہیں سکتا کہ خاکسار پہلے بھی یعنی بھاری مینڈیٹ کے بعد اس کارخیر میں کامیاب نہ ہو سکا تھا لیکن چونکہ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے‘ اس لیے امید ہے کہ اب وہ وقت آ گیا ہے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اعلیٰ سطح کے ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ حکمران واشنگٹن میں کچھ اور طے کر کے آئے ہیں… طاہر القادری شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ ’’حکمران واشنگٹن میں کچھ اور طے کر کے آئے ہیں‘‘ اگرچہ وہ بھی امریکہ ہی نے طے کیا ہوگا‘ یہ بھی میں نے محض تکلفاً ہی کہہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکمرانوں کا غصہ جعلی ہے‘‘ کیونکہ خاکسار جعلی چیزوں کی پہچان خوب رکھتا ہے کہ یہ شغل ہمارے ہاں بھی کارفرما رہتا ہے‘ خاص طور پر طالبان کی طرح اس ملک پر تسلط حاصل کرنے کا خواب جو محض وقتی طور پر شرمندۂ تعبیر نہیں ہے کیونکہ طالبان سے پہلے انشاء اللہ میری باری ہے جبکہ ملک عزیز میں پہلے بھی اقتدار کی باریاں مقرر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’اوباما سے ملاقات کے دوران ڈرون حملوں کے حوالے سے سرے سے بات ہی نہیں ہوئی‘‘ اور امریکہ نے مجھے یہ بات خود بتائی ہے کیونکہ اس کی نظر میں پاکستان میں اقتدار کے امیدواروں میں‘ میں بھی شامل ہوں اور وہ مجھ سے بھی رابطے میں رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملک پر قابض سٹیٹس کو سے صبحِ انقلاب یا صبحِ شہادت تک جنگ لڑی جائے گی‘‘ جبکہ امریکہ کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کے بارے میں اکثر معززین نے پہلے ہی اظہارِ خیال کر دیا ہے جس میں مولانا فضل الرحمن کا فصیح و بلیغ بیان بطور خاص شامل ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔ امریکہ کے ہاتھوں مرنے والا کتا بھی شہید ہے… فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’امریکہ کے ہاتھوں مرنے والا کتا بھی شہید ہے‘‘ چنانچہ ہر ایسے کتے کی یادگار کے طور پر مینار وغیرہ بھی تعمیر کرنے چاہئیں‘ نیز اگر امریکہ ملکِ عزیز کے سارے کتے ’’شہید‘‘ کر دے تو بلدیہ والوں کو انہیں زہر دینے کی ضرورت نہیں رہے گی اور اسے یہ ثواب ہر صورت حاصل کرنا چاہیے کیونکہ بالآخر اسے بھی اپنی عاقبت سنوارنے کا مسئلہ درپیش ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ڈرون حملے قبائلیوں پر ہو رہے ہیں اور پنجابیوں کو ان کی شدت کا اندازہ نہیں‘‘ لیکن اگر کسی نے طالبان کے ساتھ مُک مُکا کر بھی رکھا ہو تو یہ خوش فہمی ایسی ہی ہے جس کا شکار ہو کر حکیم اللہ محسود شہید ہوئے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ عوام کو بجلی نرخوں میں اضافہ تین برس تک برداشت کرنا ہوگا… عابد شیر علی وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا ہے کہ ’’عوام کو بجلی کے نرخوں میں اضافہ مزید تین سال تک برداشت کرنا ہوگا‘‘ ورنہ وہ ہمیں اچھی طرح سے جانتے ہیں؛ تاہم اس کے بعد ہم بدستور طفل تسلیاں دیتے رہیں گے حتیٰ کہ ہماری میعاد ہی ختم ہو جائے گی‘ اللہ اللہ خیر صلا۔ انہوں نے کہا کہ ’’بجلی کی لوڈشیڈنگ کا اصل ذمہ دار پرویز مشرف ہے‘‘ جس کے لیے دل میں نرم گوشہ ہم اس لیے بھی رکھتے ہیں کہ وہ اگر یہ کام نہ کرتا تو ہمیں بھی انتخابات کے موقع پر اسے فوراً ختم کرنے کا وعدہ کرنے اور اقتدار میں آنے کا موقع نہ ملتا اور آج خاکسار یہ بیان جاری نہ کر رہا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ’’مشرف نے اپنے دور میں کوئی نیا منصوبہ شروع نہیں کیا‘‘ جبکہ ہمارے شروع کیے جانے والے منصوبے بھی ویسے کے ویسے ہی رہ جائیں گے کیونکہ منصوبے شروع کرنے کے لیے ہوتے ہیں‘ مکمل ہونے کے لیے نہیں کہ ان کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اہلِ اقتدار کی ضروریات سے کوئی پیسہ بچتا ہی نہیں جو ان منصوبوں پر لگایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ’’طالبان سے مذاکرات دوبارہ ہوں گے‘‘ اگرچہ جو کام ایک بار کیا ہی نہ گیا ہو اُس کے دوبارہ ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ ہائوس کے باہر صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ اطلاع عام ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہٰذا عوام مطلع رہیں کہ اوّل تو طالبان کے ساتھ مذاکرات کا کوئی امکان ہی نہیں ہے اور اگر ہو بھی گئے تو ا ن کی کامیابی نہایت مشکوک ہے؛ چنانچہ اس کے بعد ان کے خلاف جنگ کرنے کا ہی آپشن باقی رہ جاتا ہے جس پر اے پی سی کے دوران جملہ سیاسی جماعتوں نے رضامندی کا اظہار کیا تھا لیکن اب یہ حضرات بھی بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں اور اس آپشن کو بھی عملی جامہ پہنانا ممکن نظر نہیں آتا‘ اس لیے حکومت نے یہ سارا معاملہ اللہ میاں پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ خود ہی کوئی راستہ نکالیں گے اور اور ہمیں اپنے نیک اعمال کے پیش نظر پورا یقین ہے کہ اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل خود ہی نکل آئے گا اور طالبان حضرات خود ہی ہدایت حاصل کر لیں گے جیسا کہ ہم مکمل ہدایت یافتہ ہونے کے بعد کافی عرصے سے صراطِ مستقیم پر چل رہے ہیں اور جس پر چلتے رہنے کا پختہ عزم رکھتے ہیں اور اسی عزم کے بل بوتے پر سارا کام چلا رہے ہیں کہ آخر آدمی کو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی چاہیے۔ المشتہر: خادم اعظم مذکور عفی عنہ آج کا مقطع جاگ کر بھاگ پڑے تھے یونہی بے سمت‘ ظفرؔ اب کھڑے سوچیے آوازہ کدھر سے آیا