توانائی بحران‘ قابو پانے کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں… نواز شریف وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں‘‘ یعنی روزمرہ کے بیانات کو پورے زوروشور سے جاری رکھا جائے‘ جن میں یہ بحران ختم ہونے کے بارے میں اندازے لگائے جاتے ہیں کیونکہ ہم نجومی نہیں ہیں جو حتمی طور پر بتا سکیں کہ یہ کب ختم ہو گا‘ ویسے بھی یہ مرضی کا مالک ہے اپنی مرضی سے ہی ختم ہوگا‘ نیز یہ کہ یہ ہم نے شروع نہیں کیا‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’گردشی قرضے کا مسئلہ دوبارہ پیدا نہ ہو‘‘ اور اگر یہ پہلے ہی پیدا ہو چکا ہے اور اربوں روپے اس سلسلے میں واجب الادا ہو چکے ہیں تو سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں کیونکہ بجلی کے نرخ مزید اور مسلسل بڑھانا پڑیں گے جو عالمی بینک کی شرائط کے عین مطابق ہے اور اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں‘ ماسوائے اس کے کہ ان شرائط کو ہم نے معمولی سمجھ کر قبول کر لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملک میں پہلی دفعہ مکانوں کے مالکان کو سبسڈی دی جائے گی‘‘ اور جو مکان جتنا بڑا ہوگا‘ سبسڈی بھی اتنی ہی بڑی ہو گی بشرطیکہ اس میں ورلڈ بینک نے لات نہ مار دی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ یہیں رہ کر حالات کا مقابلہ کروں گا… پرویز مشرف سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ ’’کہیں نہیں جائوں گا اور یہیں رہ کر حالات کا مقابلہ کروں گا‘‘ کیونکہ اب تک حالات نے میرا مقابلہ کیا ہے اور منہ کی کھائی ہے‘ اب میری باری ہے اور میں ان کا مقابلہ کروں گا اور اگر میری مرضی کے خلاف اور کسی سازش کے تحت مجھے زبردستی ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر دبئی وغیرہ بھیج دیا گیا تو میں وہاں رہ کر بھی حالات کا مقابلہ کر سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’رہائی کے بعد شکرانے کے طور پر پہلے میرا عمرہ پر جانے کا ارادہ تھا جو اب ملتوی کر دیا گیا ہے‘‘ کیونکہ دبئی سے عمرہ کرنا زیادہ نزدیک اور آسان ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ’’میری رہائی انصاف کی فتح ہے‘‘ جس میں ماشااللہ میرے ضامنوں کا زورِ بازو بھی شامل تھا جبکہ اب تک سارا کچھ اس معاہدے کے تحت ہی ہو رہا ہے جس کے تحت ان مخدوش حالات میں میں نے واپسی کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’میرا کسی اور ملک میں جانے کا ارادہ نہیں ہے‘‘ کیونکہ جس ملک میں مجھے رخصتی پر 21 توپوں کی سلامی دی گئی تھی اور اب تک میری پالیسیوں پر ہی عملدرآمد ہو رہا ہو وہاں سے کون عقلمند جانا پسند کرے گا۔ آپ اگلے روز ٹویٹر پر ایک پیغام نشر کر رہے تھے۔ عوام بجلی و گیس چوروں کو بے نقاب کریں… شہباز شریف خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’عوام بجلی اور گیس چوروں کو بے نقاب کریں‘‘ کیونکہ یہ زیادہ تر بڑے فیکٹری مالکان حضرات ہی ہیں جن پر حکومت خود ہاتھ ڈالنا مناسب نہیں سمجھتی کہ آخر لحاظ داری بھی کوئی چیز ہے‘ اس لیے عوام اگر یہ ہمت کر سکیں تو ان کی نہایت مہربانی ہوگی‘ اگرچہ بعض معززین کو سفارش کر کے چھڑوانا بھی پڑے گا۔ علاوہ ازیں‘ یہ کرم فرما بجلی چوری کا ارتکاب علی الاعلان کرتے ہیں اور کوئی نقاب وغیرہ اوڑھنے کا تکلف روا نہیں رکھتے‘ اس لیے عوام بھی انہیں بے نقاب کر سکنے کا خیال دل سے نکال ہی دیں تو بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’انسدادِ ڈینگی پلان پر عملدرآمد کیا جاتا تو دوبارہ سر نہ اٹھاتی‘‘ اس لیے اس پر اظہارِ افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کیونکہ اور بھی اکثر پلانوں پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا اور حکومت سوائے اظہارِ تاسف کے اور کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ حکومت کا کام صرف پلان بنا کر پیش کرنا ہے اور باقی سارا کام بیوروکریسی نے کرنا ہوتا ہے جن کے خلاف فی الحال کوئی پلان تیار نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ امریکہ سے دشمنی‘ طالبان بدلہ ہم سے کیوں لے رہے ہیں… خورشید شاہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ’’اگر دشمنی امریکہ سے ہے تو طالبان بدلہ ہم سے کیوں لے رہے ہیں؟‘‘ کیونکہ خاص طور پر ہم تو عاجز مسکین لوگ ہیں اور گزشتہ پانچ برس ہم نے محض عوام کی خدمت اور یادِ الٰہی میں گزار دیے اور امریکہ کے ساتھ ہم نے کوئی تعلق ہی نہیں رکھا اور اسے اس کے حال پر ہی چھوڑے رکھا کہ ملکِ عزیز میں جو چاہے کرتا رہے کیونکہ کسی دوسرے کے کام میں ٹانگ اڑانا ویسے بھی بہت بری بات ہے جبکہ موجودہ حکومت بھی اسی مرنجاں مرنج پالیسی پر چل رہی ہے اور ملک کو امریکہ کی جھولی میں ڈالنے کے علاوہ اس نے اس سے کوئی تعلق واسطہ نہیں رکھا‘ اس لیے طالبان ذرا غور کریں کہ وہ ہم امن پسند لوگوں کو کیوں نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت طالبان کے مذاکرات سے انکار کے بعد لائحہ عمل کے لیے فوری فیصلہ کرے‘‘ جیسا کہ حکومت دیگر معاملات کے حوالے سے فوری فیصلے کر رہی ہے کہ ہر معاملے کو اللہ کا نام لے کر لٹکا دیا جائے کیونکہ لٹکی ہوئی چیزیں ہم سب کو زیادہ اچھی لگتی ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔ ضرورت ہے! ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہٰذا عوام کو اطلاع دی جاتی ہے کہ اس مرحلے پر جبکہ طالبان نے ہمارے ساتھ مذاکرات سے صاف انکار کر دیا ہے اور ملّا ریڈیو بھی براڈ کاسٹ ہونے پر تیار نہیں ہیں جبکہ اپوزیشن کی طرف سے بھی اگلے لائحہ عمل کے بارے فیصلہ کرنے پر زور دیا جا رہا ہے تو حکومت انتہائی غوروفکر کے بعد اس فیصلے پر پہنچی ہے کہ اس پیچیدہ سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ٹاس کر لیا جائے کہ آیا مذاکرات کے لیے مزید انتظار کرنا ہے یا جنگ کا واحد باقی ماندہ آپشن استعمال کرنا ہے کیونکہ حکومت ایسے نازک اور سخت فیصلے ٹاس کے ذریعے ہی کیا کرتی ہے؛ چنانچہ اس عظیم مقصد کے لیے کوئی سکّہ درکار تھا جسے اُچھال کر فیصلہ کیا جا سکے جو ہم میں سے کسی کے پاس بھی نہیں ہے کیونکہ بینکوں میں بھی ہمارے اکائونٹس میں روپے ہیں یا ڈالر۔ اگرچہ عوام کی جیب تو بالکل خالی ہے‘ اس لیے بذریعہ اشتہار ہٰذا درخواست ہے کہ اگر کوئی بچا کھچا سکہ کسی کے پاس موجود ہو تو اس مقصد کے لیے حکومت کو اُدھار دے کر مشکور فرمایا جائے۔ یاد رہے کہ یہ ایک قومی ضرورت بھی ہے اور کارِ ثواب بھی۔ المشتہر: خادم اعظم عفی عنہ آج کا مقطع دوسروں کی سمت پتھر پھینکتا ہوں جب‘ ظفرؔ بھول جاتا ہوں کہ میرا اپنا گھر شیشے کا ہے