کراچی آپریشن پر بلیک میل نہیں ہوں گے… نواز شریف وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’ہم کراچی آپریشن پر بلیک میل نہیں ہوں گے‘‘ کیونکہ اگر کئی دیگر معاملات پر ہمیں بلیک میل کیا جا سکتا ہے تو صرف کراچی آپریشن پر ہی کیوں بلیک میل کیا جا رہا ہے جبکہ طالبان کی اور بات ہے جو ہمارے اسلامی بھائی ہیں بلکہ ہم سے زیادہ اسلامی واقع ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’طالبان کے ساتھ مذاکرات سے معاملات طے کرنا چاہتے ہیں‘‘ جبکہ بھارت کے ساتھ بھی ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں لیکن دونوں فی الحال تیار نہیں حالانکہ انہیں کم از کم ہماری تیاری کا ہی خیال رکھنا چاہیے لیکن کیسا زمانہ آ گیا ہے‘ کوئی کسی کے جذبات کی پروا ہی نہیں کرتا‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’مکمل امن تک کراچی آپریشن جاری رہے گا‘‘ اور چونکہ مکمل امن ممکن ہی نہیں ہے‘ اس لیے آپریشن بھی تاقیامت جاری ہی رہے گا‘ بے شک ہم خود جاری رہیں یا نہیں‘ جیسا کہ طالبان کے ارادوں سے ظاہر ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کراچی شہر کو مثالی شہر بنائیں گے‘‘ اگرچہ کئی لحاظ سے یہ اب بھی بے مثال ہو چکا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ توانائی بحران پر قابو پانے کی کوششں کر رہے ہیں… شہباز شریف خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’توانائی بحران پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘ اگرچہ بلدیاتی الیکشن جماعتی بنیادوں پر کرانے کے فیصلے نے وہ سارا مزا ہی کرکرا کر دیا ہے جو ابھی حکمرانی میں آنا شروع ہی ہوا تھا جبکہ یہ بھی صحیح وقت پر نہیں کیا گیا حالانکہ یہ ان انتخابات کے بعد بھی صادر کیا جا سکتا تھا کیونکہ ہر کام مناسب وقت پر ہی ہونا چاہیے جیسا کہ ہماری طرف سے جملہ بیانات مناسب وقت پر ہی دیئے جاتے ہیں کیونکہ ابھی کام کرنے کا مناسب وقت نہیں آیا جس کے لیے ابھی پورے ساڑھے چار سال پڑے ہیں بشرطیکہ طالبان نے بیچ میں اپنا لُچ نہ تل دیا جس کا خطرہ ہر وقت سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام کی خدمت کرتے جان بھی چلی جائے تو پروا نہیں‘‘ کیونکہ مہنگائی وغیرہ کے ذریعے اگر عوام کی جان نکال رہے ہیں تو ان کے لیے اپنی جان بھی قربان کر سکتے ہیں کہ آخر بیان دینے میں کیا ہرج ہے کیونکہ اب تک ہم بیانات کے ذریعے ہی عوام کی خدمت کر رہے ہیں اور عوام بھی ہمارے ہر اگلے بیان کے منتظر رہتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر سے ملاقات کے بعد ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ کتے کا لفظ امریکہ سے نفرت کے طور پر استعمال کیا… فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ’’کتے کا لفظ امریکہ سے نفرت کے طور پر استعمال کیا‘‘ لہٰذا اسے صرف اور صرف امریکی حوالے سے ہی سمجھا جائے کیونکہ سیاستدان کے ہر بیان کا مطلب وہی ہوتا ہے جو تشریح وہ خود کرے اور اس کی تصدیق میرے ترجمان جان اچکزئی سے بھی کی جا سکتی ہے جبکہ یہ بیان موصوف ہی کے ذریعے آنا چاہیے تھا جس کی وضاحت بھی وہی کرتے اور مجھے خواہ مخواہ پریشان نہ ہونا پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ ’’عمران سے ذاتی لڑائی نہیں‘‘ کیونکہ قومی مفاد میں‘ میں نے اپنی ذات کو خود سے علیحدہ کر رکھا ہے اور اکثر مواقع پر اس سے کام بھی لیتا رہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’وہ جب بھی ملنے آئیں‘ سر آنکھوں پر‘‘ تاہم سر میری پگڑی کی وجہ سے محفوظ ہی رہے گا البتہ آنکھیں شاید اتنا وزن برداشت نہ کر سکیں‘ اس لیے وہ تشریف نہ ہی لائیں تو بہتر ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔ فضل اللہ کے آنے سے مذاکرات کا راستہ بند ہو گیا… شیخ رشید عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ’’فضل اللہ کے آنے کے بعد مذاکرات کا راستہ بند ہو گیا‘‘ جس طرح نواز لیگ کے اقتدار میں آنے کے بعد میرا اس جماعت میں جانے کا راستہ بند ہو چکا ہے‘ حالانکہ سیاست میں راستے ہمیشہ کھلے رہنے چاہئیں جیسا کہ میں نے کھلا رکھا ہوا ہے لیکن کوئی اس پر چلنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’قوم تباہ ہو چکی ہے‘ اور اسے مزید تباہ کرنے کے لیے بیانات کی اشد ضرورت ہے تاکہ مکمل طور پر تباہ ہونے کے بعد اسے دوبارہ سر اٹھانے کا موقع مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت ابھی تک طالبان کے ساتھ مذاکرات میں سنجیدہ نہیں‘‘ جبکہ طالبان مذاکرات کے لیے گھڑیاں گن گن کر گزار رہے ہیں اور ان کی یہ گنتی ختم ہونے میں ہی نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ ’’اپوزیشن بھی نااہل ہو چکی ہے‘‘ ماسوائے خاکسار کے‘ جو ماشاء اللہ اکیلا ہی سوا لاکھ کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان پرنٹنگ پریس صرف نوٹ چھاپ سکتی ہے‘‘ حالانکہ یہ نجی چھاپہ خانوں کا کام ہے لیکن یہاں کوئی کام بھی صحیح طریقے سے نہیں ہو رہا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی الیکشن جمہوریت کی فتح ہے… وٹو پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ’’جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی الیکشن جمہوریت کی فتح ہے‘‘ اگرچہ جمہوریت کے جھنڈے ہم نے اپنے سابق دور میں ہی گاڑ دیے تھے کیونکہ عوام اور ان کے رہنمائوں کی معاشی ترقی کے بغیر جمہوریت نہ پنپ سکتی ہے نہ اس کی فتح ممکن ہو سکتی ہے جبکہ عوام کی معاشی ترقی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے کی گئی اور ہم درویشوں نے اپنے طور پر ہاتھ پائوں مار کر کچھ دال دلیا کر لیا تاکہ جمہوریت کی گاڑی اسی طرح چلتی رہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس سے قوم کو اپنے حقیقی نمائندے سامنے لانے کا موقع ملے گا‘‘ اگرچہ وہ ہمارے جیسے حقیقی تو نہیں ہوسکتے جن کے نزدیک سیاست ایک عبادت سے کسی طور کم نہیں جس سے عاقبت نہ سہی دنیا ضرور سنور جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’حکومت دہشت گردی کے معاملے کو جتنا جلدی ہو سکے منطقی انجام تک پہنچائے‘‘ پیشتر اس کے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب بھی اپنے اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائیں جس کے آثار ابھی سے نمایاں ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ آج کا مطلع چلو اتنی تو آسانی رہے گی ملیں گے اور پریشانی رہے گی