"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں اُن کی‘ متن ہمارے

نئی حلقہ بندیاں واضح نہیں ہیں… یوسف رضا گیلانی سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ’’نئی حلقہ بندیاں واضح نہیں ہیں‘‘ بلکہ موجودہ حکومت کا کوئی کام بھی واضح نہیں ہے جبکہ میں نے دیگر معززین کے ساتھ مل کر جو کام کیا‘ بالکل واضح تھا اور سب کو نظر آ رہا تھا کہ عوام اور ملک کی خدمت کس زور شور سے کی جا رہی ہے‘ حتیٰ کہ قوم اور ملک اسے ہمیشہ کے لیے یاد رکھیں گے کہ دن دیہاڑے اور علی الاعلان خدمت کیسے کی جاتی ہے لیکن کسی نے ہم سے سبق نہیں سیکھا اور اس کا فیصلہ وقت کرے گا جس نے خاکسار کے بارے تو فیصلہ پہلے ہی کر دیا ہے کیونکہ یہ زرداری صاحب ہی تھے جنہوں نے مجھے سوئس عدالت کو خط نہ لکھنے دیا کہ دراصل میری زبردست خدمات پر حسد کرتے ہوئے وہ مجھ سے جان چھڑوانا چاہتے تھے؛ چنانچہ عدالت نے میرا چھابہ ہی اُلٹا کر رکھ دیا جو سب کے لیے باعثِ عبرت ہے کہ اب ع پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں آپ اگلے روز ملتان میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔ امتحانی مراکز میں بوٹی مافیا کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا… رانا مشہود صوبائی وزیر تعلیم پنجاب رانا مشہود نے کہا ہے کہ ’’امتحانی مراکز میں بوٹی مافیا کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘ جس طرح ہم بجلی چوری وغیرہ کو برداشت نہیں کرتے اور وہ بدستور ہو رہی ہے؛ چنانچہ ہماری برداشت کو داد دینی چاہیے کہ اس کا دائرہ کہاں کہاں تک پھیلا ہوا ہے اور اس کی خلاف ورزی کہاں کہاں تک ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کلسٹر سنٹرز کی طرز پر اور بھی امتحانی مراکز قائم کیے جا رہے ہیں تاکہ ایک ہی چھت کے نیچے زیادہ سے زیادہ امیدواران امتحان دے سکیں‘‘ جبکہ ان مراکز کی چھت کے اوپر بھی گنجائش رکھی گئی ہے تاکہ بوٹی مافیا کو قدرے سہولت رہے کیونکہ وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں اور انہیں بھی اپنی سرگرمیاں آزادانہ طور پر بجا لانے کا پورا پورا حق حاصل ہے‘ اس لیے بجلی چوروں اور ڈاکو حضرات سے بھی زیادہ بازپرس نہیں کی جا رہی کہ ہم کسی کے روزگار پر لات مارنے کے حق میں نہیں ہیں جبکہ ہم عاجزوں مسکینوں کا روزگار الگ سے لگا ہوا ہے‘ ماشاء اللہ‘ چشمِ بددُور! آپ اگلے روز لاہور میں دارِ نسواں گرلز ہائی سکول کے امتحانی مراکز پر چھاپہ مارنے کے بعد گفتگو کر رہے تھے۔ طالبان سے مذاکرات کے لیے سارے رابطے ٹوٹ چکے ہیں… چودھری نثار وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار احمد خان نے کہا ہے کہ ’’طالبان سے مذاکرات کے لیے سارے رابطے ٹوٹ چکے ہیں‘‘ اگرچہ وہ ابھی شروع ہی نہیں ہوئے تھے اور ہم ان پر غور ہی کر رہے تھے‘ یعنی ع حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے اور میری ساری محنت بھی رائگاں گئی جو یہ رابطے اختیار کرنے کے سلسلے میں غورو خوض پر مشتمل تھی کیونکہ غورو خوض کا سارا طریقہ ہم نے اپنے قائد سے سیکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ڈرون حملے جاری رہنے تک مذاکرات ایک خام خیالی ہے‘‘ حتیٰ کہ ڈرون حملوں کا خاتمہ بھی خام خیالی ہے جس نے اُن جملہ خام خیالیوں میں اضافہ کردیا ہے جو لوڈشیڈنگ کے خاتمے وغیرہ کے بارے میں ہمیں لاحق تھیں؛ چنانچہ اب ہم ہر خیال کو پختہ کرنے کے بعد ہی کوئی قدم اٹھایا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس وقت کوئی بھی پاکستان کے مفاد کو نہیں دیکھ رہا‘‘ چنانچہ یہ ہم ہی ہیں جو اسے بغور دیکھ رہے ہیں اور کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کریں اور کیا نہیں۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے۔ قوم کی خدمت کے لیے دوبارہ متحرک ہو رہی ہوں… مریم نواز وزیراعظم میاں نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ’’قوم کی خدمت کے لیے دوبارہ متحرک ہو رہی ہوں‘‘ کیونکہ والد صاحب اکثر غیر ملکی دوروں پر رہتے ہیں جبکہ چچا جان بھی اکثر اوقات ان کے ساتھ ہی ہوتے ہیں اور کم از کم پنجاب کی حد تک صرف حمزہ بھائی ہی اس خدمت کے لیے باقی رہ گئے ہیں جو ایک طرح سے آئندہ وزارتِ اعلیٰ کے لیے ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں تاکہ سلمان بھائی ان کی جگہ لے سکیں اور یہ ہیچ مدان صرف وزارتِ عظمیٰ میں دلچسپی رکھتی ہے کیونکہ بینظیر بھٹو کے بعد آج تک ملک کو کوئی خاتون وزیراعظم میسر نہیں آئی ہے اور ملکِ عزیز میں عورتوں کے حقوق کے لیے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہے؛ چنانچہ ساتھ ساتھ آواز اٹھانے کی پریکٹس بھی جاری رکھے ہوئے ہوں تاکہ والد صاحب فارغ ہو کر اپنے اندرون و بیرون ملک کاروبار پر بھی توجہ دے سکیں جبکہ کاروبار کے علاوہ ان کا کہیں جی ہی نہیں لگتا کیونکہ حکومت اور کاروبار کو یکجا کرنے سے بھی اب ان کا دل بھر گیا ہے اور کھانوں کی طرح اب وہ اپنی مصروفیات میں بھی ورائٹی چاہتے ہیں جس میں ان کی مدد کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ٹویٹر پر ایک پیغام نشر کر رہی تھیں۔ اتنے بڑے شہر میں گلے پر ڈور پھرنا کوئی بڑا واقعہ نہیں… کمشنر لاہور کمشنر لاہور راشد محمود نے کہا ہے کہ ’’اتنے بڑے شہر میں گلے پر ڈور پھرنے کا واقعہ کوئی بڑی بات نہیں ہے‘‘ کیونکہ اگر اس شہر کے سائز کو دیکھا جائے تو ہر روز اس قسم کے کم از کم پچاس واقعات ہونے چاہئیں جبکہ کھلے گلے کے ساتھ پھرنے والوں کو بھی کچھ خیال کرنا چاہیے اور گلے وغیرہ کا پورا بندوبست کر کے گھر سے نکلنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہوا چلتی ہے تو ہر کسی کا پتنگ اڑانے کو جی چاہتا ہے‘‘ اور خاکسار خود بھی اس سے مبّرا نہیں ہے کیونکہ ہوا کو تو چلنے سے منع نہیں کیا جا سکتا‘ البتہ حکومت کو اس سلسلے میں ایک تجویز موصول ہوئی ہے جس کے مطابق بجلی کی طرح ہوا کی بھی لوڈشیڈنگ کردی جائے کیونکہ اگر پتنگیں کم اُڑیں گی تو گلے بھی اُسی حساب سے کم ہی کٹیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پتنگ بازی پر پابندی پر عملدرآمد کرانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں‘‘ چنانچہ اس سے پہلے پہلے جو حضرات چاہتے ہیں‘ اپنا شوق پورا کر لیں‘ ویسے بھی آج تک کسی بھی پابندی پر کبھی عمل نہیں کیا گیا جو کہ نہایت افسوس کی بات ہے کیونکہ ہم تو پابندی عائد ہی کر سکتے ہیں‘ اس پر عمل کرنا یا نہ کرنا خود عوام کا کام ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک نجی ٹی وی پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ آج کا مطلع میں نے کہا بسنت ہے‘ آئیں پتنگ اُڑائیں اُس نے دیا جواب کہ جائیں‘ پتنگ اُڑائیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں