کمزور معیشت ،غربت، بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی سے فوری نمٹیں گے …نواز شریف وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’کمزور معیشت،غربت اور بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی سے فوری نمٹیں گے‘‘ بلکہ عسکریت پسندی سے تو ہم تقریباً نمٹ ہی چکے تھے کہ کم بخت امریکہ نے ڈرون حملہ کر کے سارا کھیل ہی بگاڑ دیا جبکہ وزیر داخلہ اس پر مکمل سوچ بچار کر رہے تھے بلکہ ان معززین کی فہرستیں بھی تیار کرلی تھیں جنہیں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے بھیجا جانا تھا، اگرچہ طالبان کے ساتھ ابھی اس سلسلے میں کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا کیونکہ ہم انہیں سرپرائز دینا چاہتے تھے ، اور ،جہاں تک کمزور معیشت کا تعلق ہے تو اس کا حل بھی اب چند ہی دنوں کی بات ہے کیونکہ بڑے بڑے جْملہ شرفاء نے ٹیکس دینے کا وعدہ کر لیا ہے کیونکہ وہ بھی اس پر سنجیدگی سے سوچ بچار کر رہے ہیں اور پرانا غیر سنجیدہ رویہ چھوڑ دیا ہے جب ٹیکس کے مطالبے پر وہ ہنسنا شروع کر دیتے تھے۔ اور ،غربت تو ویسے بھی جمہوریت کا حْسن ہے کہ اگر غرباء نہ ہوں تو اتنی آسانی سے ہمیں ووٹ کیونکہ دستیاب ہو سکتے ہیں جو اپنے محبوب تھانیداروں اور پٹواریوں، تحصیلداروں کے ایک اشارے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کوتیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ آپ اگلے روز کولمبو میں عالمی رہنمائوں سے ملاقات کر رہے تھے۔ اکثریت نہ رہی تو اسمبلی توڑ کر دوبارہ انتخابات کرائیں گے …عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خاں نے کہا ہے کہ ’’اکثریت نہ رہی تو اسمبلی توڑ کر نیا انتخابات کرائیں گے‘‘ اگرچہ اس میں یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ اگلے حالوں بھی جائیں لیکن اگر ایسا ہو بھی گیا تو یہ بھی ایک طرح کی تبدیلی ہی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’کرپٹ وزراء کو نکالا جائے گا‘‘ تاکہ نئے وزراء بھی آ کر کچھ دال دلیا کر لیں کیونکہ صوبے پر سب کا حق برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’نیٹو سپلائی کی بندش کا فیصلہ حتمی ہے‘‘ کیونکہ فیصلہ ہم نے کر لیا ہے، اس پر عملدرآمد ہونا حْکم ربیّ پر منحصر ہے، تاہم اس کے لئے ہمارے وزیر اعلیٰ نے ابھی سے ڈنڈ بیٹھکیں لگانا شروع کر دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘ البتہ دائیں بائیں ہونے کی گنجائش رکھ لی گئی ہے کیونکہ پیچھے ہٹنا ہم نے سیکھا ہی نہیں ، اور، ویسے بھی یہ کام ہم نے عوام کے ذمے لگا رکھا ہے کہ کچھ کام عوام کوبھی کرنا چاہئے نہ کہ مفت کی روٹیاں توڑتے رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’مذاکراتی عمل پر ڈرون حملہ پارلیمنٹ کے منہ پر طمانچہ ہے‘‘ جس کی آواز سب کو صاف سنائی دے رہی ہے اور شکر ہے کہ میں اْس وقت پارلیمنٹ میں موجود نہیں تھا ورنہ حالات زیادہ خراب ہو سکتے تھے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔ اسامہ کے خلاف استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کا کوئی توڑ نہیں…گیلانی سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ’’اسامہ کے خلاف استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کا کوئی توڑ نہیں‘‘ اسی طرح ہم نے اپنے دور میں جو ٹیکنالوجی استعمال کی تھی، کسی کے پاس اس کا بھی کوئی توڑ نہیں تھا اور اگر رنگ میں بھنگ نہ ڈلتاتو اس کے مزید جوہر بھی دکھائے جانا تھے لیکن فلکِ کج رفتار کو کسی کی ترقی و خوشحالی ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ جب چاہتا ہے ہر شریف آدمی کا چھابہ الٹا کر رکھ دیتا ہے حالانکہ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنی رفتار میں یہ کجی دور کر لے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کیری لوگر بل کے سوا کسی بھی موقع پر افواج اور حکومت میں دوری نہیں ہوئی‘‘ حتیٰ کہ ہمارے کار ہائے نمایاں و خفیہ پر بھی افواج ہماری طرف حیرت سے دیکھتی رہیں کہ یہ لوگ کیا کرنے آئے تھے اور کیا کر رہے ہیں؛حالانکہ ہم وہی کچھ کرنے آئے تھے جو کر رہے تھے اور ہم عاجز مسکین لوگ اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ن لیگ کو ایم کیو ایم کی ضرورت ہے، اسی لئے گورنر تبدیل نہیں کر رہی‘‘ حالانکہ ہم نے محض خدا ترسی کے طور پر ایسا کیا تھا ورنہ ہمیں اس کی ہرگز ضرورت نہیں تھی۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔ ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں، مودی بھی بطور وزیراعظم قبول ہوں گے…سرتاج عزیز وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ’’ہمارا کوئی پسندیدہ نہیں، مودی بھی بطور وزیر اعظم قبول ہوں گے‘‘ کیونکہ ہماری پسند یا ناپسند سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا اس لئے ایجاب و قبول کے سوا اور کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’بھارتی عوام کا استحقاق ہے کہ وہ کس کو منتخب کرتے ہیں‘‘ البتہ ہمارے ہاں صورتِ حال ذرا مختلف ہے کیونکہ ایک تو ایجنسیز کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے اور دوسرے عوام اپنا استحقاق آگے پولیس وغیرہ کو منتقل کر دیتے ہیں جبکہ انتخابی عملہ بھی پولنگ کے دوران عوام کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتا ہے اور نتائج دیکھ کر عام طور پر رائے دہندگان حیران و پریشان ہو کر رہ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’جو ووٹ کے ذریعے برسر اقتدار آئے گا، اس کے ساتھ کام کریں گے‘‘ البتہ اس کے لئے ووٹ کے ساتھ خود کامیاب ہونا کچھ اتنا ضروری نہیں ہوتا اور فرشتوں کی اشیر باد ہی کافی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’بھارت کے ساتھ امن وزیر اعظم نواز شریف کے پروگرام کا اہم جزو تھا‘‘ اور اسی طرح طالبان کے حوالے سے بھی یہی پروگرام تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کا پروگرام ذرا مختلف ہے۔ آپ اگلے روز نئی دہلی میں بھارتی اخبار کو انٹریو دے رہے تھے ۔ الٹی منطق جب سے یہ حکومت، جیسے تیسے، منتخب ہو کر آئی ہے ،بھانت بھانت کی بولیاں سننے میں آ رہی ہیں اوراسے ٹک کر کام ہی نہیں کرنے دیا جا رہا۔ کہیں شکایتیں ہیں تو کہیں مشورے، عقل دنگ ہے کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے اور اچھے بھلے حضرات بے پرکی ہانکنے لگ گئے ہیں۔ اب اپنے کنور دلشاد ہی کولیجئے۔ دْور کی کوڑی لائے ہیں کہ لندن سے ایک شخص کو لا کر گورنر بنا دیا گیا اور مخصوص نشستوں پر رشتہ داروں کو نوازا جا رہا ہے۔ جہاں تک گورنر کا تعلق ہے تو مکمل طور پر دیسی گورنر ہم بہت بھگت چکے ہیں۔ اس لئے ورائٹی کے طور پر نیم ولایتی گورنر کا مزہ بھی چکھنا چاہئے کہ رفتہ رفتہ مکمل طور پر ولایتی گورنر کا سکوپ بھی نکل سکتا ہے۔ اور، یہ اپنے رشتہ داروں کو مخصوص نشستوں پر لگانے پر اعتراض بھی مْلکی مفاد کے سراسر خلاف ہے کیونکہ ایسی نشستوں پر اگر رشتہ داروں کو نہیں تو کیا دشمنوں اورمخالفوں کو لگایا جائے کہ آخر حقوق العباد بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ کنور صاحب کو چاہئے تھا کہ الیکشن کمیشن سے فارغ ہو کر کچھ اسلامی تعلیمات ہی کا مطالعہ کرلیتے ،وغیرہ وغیرہ۔ آج کا مقطع پوچھا تو ناچار ظفر نے اپنی ذات بتائی روٹی