اگر غداری مقدمہ شروع نہ کرتے تو مشرف ملک سے فرار ہو جاتے... وزیر اطلاعات
وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''اگر غداری کیس شروع نہ کرتے تو مشرف ملک سے فرار ہو جاتے‘‘ کیونکہ دیگر مقدمات میں ضمانت ہو جانے پر عدالت نے ان کا نام ای سی ایل سے خارج کر دینا تھا‘ حالانکہ ہم نے موصوف کو پوری تسلی دے رکھی تھی کہ ملک کے اندر بھی ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے اور ان کی وطن واپسی کے بعد سب کچھ طے شدہ معاہدے کے تحت ہی عمل میں لایا جا رہا تھا کیونکہ ان کے ضامنین ہی اس قدر تگڑے تھے کہ ہم ان سے روگردانی کر ہی نہیں سکتے تھے‘ اور ہیلی کاپٹر بھیج کر انہیں اٹھا کر بھی لے جاتے‘ اس لیے راوی ان کے لیے چین ہی چین لکھتا تھا‘ لیکن وہ دبئی جانے پر بضد رہے۔ اس لیے غداری کے مقدمہ کی گرد جھاڑ کر اسے آگے کردیا گیا۔ اگرچہ ایف آئی اے والوں کے پاس کوئی قابلِ ذکر ثبوت ہی نہیں تھا اور یہ حکمنامہ دیکھ کر وہ خود بہت حیران ہوئے‘ اوپر سے راولپنڈی والا سانحہ ہو گیا جس کے بعد عوام کو کوئی اچھی خبر دینا بھی بہت ضروری ہو گیا تھا تاکہ ان کے ہوش و حواس ذرا واپس آ جائیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
پنڈورا باکس کھلے گا اور بہت سے چہرے سامنے آئیں گے... شریف الدین پیرزادہ
ممتاز قانون دان شریف الدین پیرزادہ نے کہا ہے کہ ''غداری
کیس سے پنڈورا باکس کھلے گا اور بہت سے چہرے سامنے آئیں گے‘‘ جن میں خاکسار کا چہرہ بھی شامل ہوگا کہ 3 نومبر والے نیک کام کا مشورہ انہیں میں نے دیا تھا‘ کیونکہ وکیل کا کام مشورہ دینا ہی تو ہوتا ہے‘ آگے کوئی اس پر عمل کرے نہ کرے‘ بلکہ اگر وکیل مقدمہ لینے سے انکار کر دے تو اس کے خلاف پروفیشنل مس کنڈکٹ کی کارروائی ہو سکتی ہے‘ اس لیے خدشہ یہی ہے کہ دوسروں کے ساتھ ساتھ کہیں میں بھی نہ دھر لیا جائوں‘ چنانچہ اس بکس کو بند ہی رہنے دینا چاہیے بلکہ اس پر کوئی بڑا سا قُفل لگا دینا چاہیے تاکہ شریف آدمیوں کو خواہ مخواہ پریشان نہ کیا جاتا رہے۔ انہوں نے کہا کہ ''مشرف کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار ہوں‘‘ کیونکہ اپنے مشورے کا دفاع میں ہی بہتر طور پر کر سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ ملکی تاریخ کا اہم ترین مقدمہ ہے‘‘ جس کی بنیاد وہ اہم ترین مشورہ ہے جو خاکسار نے انتہائی خلوصِ نیت کے ساتھ ارزانی کیا تھا اور اسے اب بھی قابلِ فخر سمجھتا ہوں۔ آپ اگلے روز کراچی میں رونامہ ''دنیا‘‘ کو انٹرویو دے رہے تھے۔
ملک انتہائی خطرناک موڑ پر
کھڑا ہے... فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ملک اس وقت انتہائی خطرناک موڑ پر کھڑا ہے‘‘ بلکہ کافی عرصے سے اسی طرح کھڑا ہے اور اب اسے کچھ دیر کے لیے بیٹھ جانا چاہیے کیونکہ یہ اب تک بہت تھک چکا ہوگا۔ علاوہ ازیں اسے یہ خطرناک موڑ مڑنے سے بھی اجتناب کرنا چاہیے اور جس طرف مڑنا صحیح ہے اس کی نشاندہی انشاء اللہ بلکہ ماشاء اللہ میں کر سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''علماء‘ سیاستدانوں اور عوام کو سازشوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو جانا چاہیے‘‘ اور امید ہے کہ کچھ عرصے تک میں بھی فارغ ہو کر ان میں شامل ہو جائوں گا کیونکہ فی الحال تو میں پختونخوا کی حکومت گرانے کے لیے آفتاب شیرپائو کی جماعت کو ہی ساتھ ملانے میں کامیاب ہوا ہوں جبکہ اس سلسلے میں وزیراعظم صاحب سے بھی گزارش کروں گا کہ اگر ہم حکومت کے ساتھ ہیں تو حکومت کو بھی ہمارے ساتھ ہونا چاہیے اور اس نیک مقصد میں ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہیے کیونکہ زندگی کی یہ پہلی اور آخری نیکی ہے جو مجھ سے سرزد ہو رہی ہے‘ اللہ تعالیٰ منظور و مقبول فرمائیں‘ آمین‘ ثم آمین۔ آپ اگلے روز لاہور میں مختلف وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔
ہم این آر او کی وجہ سے مشرف پر
غداری کیس نہ چلا سکے... خورشید شاہ
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''ہم این آر او کی وجہ سے مشرف کے خلاف غداری کیس نہ چلا سکے‘‘ کیونکہ وہ بجا طور پر ہمارے محسن تھے کہ اگر وہ این آر او کا معجزہ نہ دکھاتے تو ہماری لاٹری بھی نہ نکلتی اور زرداری صاحب صدر مملکت بننے کا خواب تک نہ دیکھ سکتے۔ علاوہ ازیں ہمارے جملہ معززین فکرِ روزگار میں ہی اس قدر مصروف تھے کہ اگر این آر او نہ بھی ہوتا تو اس کام کے لیے وقت نہ نکال سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ''مشرف کے ساتھیوں کو بھی سزا ملنی چاہیے‘‘ تاکہ موجودہ حکومت مزید مضبوط ہو سکے کیونکہ اس طرح ملک کے سارے مسائل ویسے ہی حل ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف 3 نومبر سے کارروائی شروع کر کے جن لوگوں کو بچانا چاہتے ہیں‘ اس کے بارے میں بتائیں‘‘ جبکہ وہ زرداری صاحب اور دیگران کو بچانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہے اور ہر روز کوئی نہ کوئی نیا تُوت کھڑا کر دیا جاتا ہے حالانکہ متعلقہ معاہدے کی ابھی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی ہے‘ کم از کم انہیں اس سیاہی کا ہی خیال کرنا چاہیے‘ کیا زمانہ آ گیا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
پنجاب حکومت افسروں کی ٹرانسفر
پوسٹنگ کر کے کام چلا رہی ہے... وٹو
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ''پنجاب حکومت افسروں کی ٹرانسفر پوسٹنگ کر کے کام چلا رہی ہے‘‘ حالانکہ ہم نے یہ کام نہیں کیا تھا بلکہ سارا کام انہی افسروں کے ذریعے چلایا تھا جس کے عوض یہ معززین ہمارا کام چلا رہے تھے اور صحیح معنوں میں وسیلۂ روزگار بنے ہوئے تھے‘ حتیٰ کہ جس افسر کو بھی جس جگہ لگایا گیا اس نے اس قدر تسلی بخش طور پر اپنی اور ہماری خدمت سرانجام دی کہ اس کی ٹرانسفر ممکن ہی نہ رہی تھی اور اب انہیں انکوائریوں اور مقدمات سے پریشان کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''فرقہ واریت ختم کرنے کے لیے علماء اپنا کردار ادا کریں‘‘ کیونکہ ہمارا تو جو کردار تھا‘ ہم نے جی بھر کے ادا کردیا ہے‘ اور اگر علماء اس سلسلے میں کچھ نہ کر سکے تو خاکسار کو خود یہ فریضہ سرانجام دینا پڑے گا کیونکہ شب و روز کی عبادت کی وجہ سے میرا اپنا رتبہ علمائے کرام سے کسی طور کم نہیں ہے‘ ماشاء اللہ۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام بھی صبر و تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کریں‘‘ کیونکہ اگر وہ ہمارے کارناموں پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کر چکے ہیں تو اب انہیں ایسا کرنے سے کیا موت پڑ جائے گی۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
چمک چمک کے بُجھا چاند کا چراغ‘ ظفرؔ
اُٹھی نہ لہر کوئی ساتویں سمندر میں