"ZIC" (space) message & send to 7575

ادریس بابر سے شعیب بن عزیز تک

ادریس بابرؔ جدید شعراء کی اس فہرست میں بطورِ خاص شامل ہیں جو میں نے اپنے طور پر بنا رکھی ہے۔ آپ تقریباً 14 سال پیشتر ناروے چلے گئے اور وہاں شعبۂ تدریس و ترجمہ سے منسلک ہو گئے۔ کوئی چھ ماہ پہلے وطن کی محبت نے جوش مارا تو واپس آ گئے‘ جس کا جواب یہ ملا کہ 6 ماہ پہلے یو ای ٹی کی کینٹین سے ان کا بیگ چوری ہو گیا جس میں نقدی‘ سرٹیفکیٹس اور لیپ ٹاپ سمیت ایک لاکھ روپے سے زیادہ مالیت کی اشیا شامل تھیں‘ یہ سمجھیے کہ یہی ان کی جمع پونجی بھی تھی۔ بڑی تگ و دو کے بعد تھانہ گجر پورہ میں مقدمہ نمبر 126/13 درج کروانے میں کامیابی ہوئی اور جناب محمد شہباز اور محمد حسین سب انسپکٹرز تفتیشی مقرر ہوئے۔ اس دوران چور کی طرف سے ایک موبائل نمبر سے تاوان کا مطالبہ بھی ہونے لگا۔ یہ نمبر تفتیشی حضرات کو دے دیا گیا۔ جس طرح تاوان خوروں کو گھیرا جاتا ہے‘ وہ طریقہ اختیار کرنے کی بجائے چور کو اس نمبر پر براہ راست فون کر کے تھانہ آنے کو کہا گیا‘ تھانے تو خیر کیا آنا تھا‘ اس نے موبائل سے وہ سم ہی نکال دی اور یوں معاملہ وہیں کا وہیں رہا‘ جبکہ کینٹین کے ٹھیکیدار کا بھی ہاتھ اس میں ہو سکتا ہے۔ 
اوپر اپنے دوست شعیب بن عزیز کا نام ادریس بابر کے ساتھ لکھنے کا مقصد یہ نہیں کہ ہم دونوں کی شاعری کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کا رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس سلسلے میں کچھ کریں اور جواب میں یہ مصرعہ نہ پڑھ دیں کہ ع اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ آپ آج کل مجلسِ ترقیٔ ادب کے لیے جدید اردو شاعری کا انتخاب مرتب کر رہے ہیں۔ اور اب اس کے کچھ تازہ اشعار: 
تجھے پتہ ہے میں تیرے بغیر جی لوں گا 
تجھے پتہ ہے تو پھر مجھ سے دور جا ہی نہیں 
کام کے خانے میں لکھ دو شاعر 
نام کے خانے میں پاگل لکھ دو 
خوف اندر سے مجھے کھاتا چلا جاتا ہے 
خوابِ آئندہ جو یاد آتا چلا جاتا ہے 
جیسے قاتل کو میں‘ باتوں میں لگانا چاہوں 
آدمی وقت کو بہلاتا چلا جاتا ہے 
روشنی اور اندھیرے سے بنا شہرِ خیال 
دیکھتا کیا ہوں‘ نظر آتا چلا جاتا ہے 
ہوشیاروں کے یہ دن رات ہیں‘ دیوانہ کوئی 
جیسے اک بات کو دُہراتا چلا جاتا ہے 
نورانیوں‘ غیرفانیوں میں 
انسان بہت ڈرا ہوا تھا 
اک خواب میں جاگنے سے پہلے 
اک باغ کا تذکرہ ہوا تھا 
دہلیز پہ خاک اُڑ رہی تھی 
آواز سے گھر بھرا ہوا تھا 
تُو اِس دن کے اُس پار پورا اُتر 
سمندر تو بھائی بڑی چیز ہے 
ہمیں وہ جو اک دوسرے سے نہیں 
محبت سمجھ لو وہی چیز ہے 
بہت ایک سینے کے سنسان میں 
ہوا سے الجھتی ہوئی چیز ہے 
ہوا‘ آگ‘ پانی کوئی چیز ہے 
بدن خاک اڑتی ہوئی چیز ہے 
دل کسی دہر کے دستور کی اک شق ہی نہ ہو 
کہیں اندر سے یہ کافر بھی منافق ہی نہ ہو 
غور کرنے سے نمودار ہوئے نقش و نگار 
گھر کی دیوار کسی باغ سے ملحق ہی نہ ہو 
کبھی تنسیخ‘ کہیں کوئی اضافہ کیے جا 
تیری دنیا تری خواہش کے مطابق ہی نہ ہو 
دل کی دھڑکن بھی ہے تشویش کا باعث بابرؔ 
یہ دھماکے سے ذرا قبل کی ٹِک ٹِک ہی نہ ہو 
کون مانے گا کہ بے بال و پری سے پہلے 
ہم کسی باغ میں تھے دربدری سے پہلے 
ٹوٹ جاتا ہے جو پیمانہ عطا کرتے ہو 
دلبری کرتے تھے کیا ساقی گری سے پہلے 
اس موج میں تہہ نشیں تھے طوفان 
اس گرد میں کارواں رہے ہیں 
ندی کا یہ ہے کہ چلتی رہے گی ساتھ مرے 
اور اس طرح مرے دل میں جگہ بنا لے گی 
کہانی آگے بڑھی‘ وقت پیچھے ہٹتا گیا 
ہمیں پتہ تھا محبت ہمیں بچا لے گی 
کبھی خدائی کی نیت پہ شک نہیں کرتے 
تمہیں جو قتل کرے‘ وارثوں کو پا لے گی 
تجھے غور سے دیکھنا ہے الگ 
زمانہ الگ سرسری چیز ہے 
غزل ختم‘ اس کے سوا شہر میں 
نہ میں ہوں نہ کوئی مری چیز ہے 
آنکھ بچا کے لے گیا‘ ہاتھ بڑھا کے لے گیا 
رات کے پار ایک خواب‘ خواب کے پار ایک دن 
آج کا مطلع 
جھوٹ سچ کو دیکھ لیتے‘ یہ تمہارا کام تھا 
بات سن لیتے کبھی‘ اتنا ہی سارا کام تھا 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں