ملک بچانے کے لیے وزیراعظم
کا عہدہ قبول کیا... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''میں نے ملک بچانے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ قبول کیا‘‘ جیسا کہ جنرل مشرف نے ملک بچانے کے لیے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ قبول کیا تھا؛ چنانچہ آج تک موصوف ہی کی پالیسیوں پر عمل درآمد ہو رہا ہے اور اس طرح ملک کو بچایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میں تو وزیراعظم بننے کا امیدوار ہی نہیں تھا‘‘ بلکہ یہ انہی قوتوں کا کیا دھرا ہے جو ہر الیکشن کے بعد وزیراعظم کا فیصلہ کرتی ہیں کیونکہ انہی کے مساعیٔ جمیلہ سے مجوزہ وزیراعظم اسمبلی میں اکثریت حاصل کر کے آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردی کے خاتمے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے‘‘ کیونکہ اس نیک مقصد کے لیے لوڈشیڈنگ اور مہنگائی وغیرہ کے خاتمے پر جو سیاست کے بے پناہ امکانات موجود ہیں اور ان پر جی بھر کے سیاست کی بھی جا رہی ہے تو دہشت گردی پر اس کی کیا ضرورت ہے جبکہ دیگر مسائل کی طرح اس کے بھی ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے حالانکہ اس کے دعوے ہر روز کیے جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ادبی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان نے قومی اتحاد خطرے
میں ڈال دیا... فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ
''عمران خان نے قومی اتحاد خطرے میں ڈال دیا‘‘ جو ہم سیاست دانوں کے علاوہ علمائے کرام کی صفوں میں بھی دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا اور جس کے دل کُشا اور روح پرور نظارے روزانہ دیکھنے میں آتے رہتے ہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ اتحاد کچھ ضرورت سے زیادہ ہی ہو گیا ہے لہٰذا اس کی بھی لوڈشیڈنگ ہونی چاہیے جس کے لیے میری خدمات ہمیشہ کی طرح حاضر ہیں کیونکہ خاکسار کا اپنا لوڈ بھی ماشاء اللہ کافی ہے‘ ساتھ ساتھ جس کی شیڈنگ بھی ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''چند جماعتوں کا دھرنا قومی اتحاد کا نعم البدل نہیں ہو سکتا‘‘ جس طرح ہمارے اُن وزراء کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا جن کے بارے میں حکومت نے رضامندی بھی ظاہر کر رکھی ہے اور اُن سے حلف لینے سے بھی کترا رہی ہے حالانکہ وہ خود بھی ہر وقت حالتِ حلف میں رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''خیبرپختونخوا حکومت مشکلات کی شکار ہے‘‘ جبکہ خاکسار قومی اتحاد کے اصول کے پیش نظر اسے ان مشکلات سے نکالنے کی تدبیریں کرتا رہتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
بلدیاتی انتخابات میں جھُرلو نہیں
پھیرنے دیں گے... لطیف کھوسہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل سردار لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ ''ہم بلدیاتی انتخابات میں حکومت کو جھُرلو نہیں پھیرنے دیں گے‘‘ البتہ اگر وہ یہ نیک کام ہمارے ساتھ شیئر کر لے تو دوسری بات ہے کیونکہ اس کام میں ہم بھی کافی مہارت رکھتے ہیں جس کا فائدہ اٹھانا چاہیے جبکہ ماہرین کی ملک میں ویسے بھی بہت کمی واقع ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پرویز مشرف کے ٹرائل کے سوال پر حکمران کنفیوژن کا شکار ہیں‘‘ حالانکہ اس معاملے میں ہمارا ذہن بالکل صاف تھا کہ اس ٹرائل سے خواہ مخواہ پینڈورا باکس کھولنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ ویسے بھی میاں صاحب کا تختہ اُلٹانا اُن کے کریڈٹ پر موجود تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم ہر سطح پر ڈٹ کر مقابلہ کریں گے‘‘ جیسا کہ عام انتخابات کی سطح پر کیا تھا اور اس شکستِ فاتحانہ پر اب بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ابھی حکومت کو آئے ہوئے 6 ماہ ہی ہوئے ہیں اور لوگوں نے ہماری حکومت کو یاد کرنا شروع کردیا ہے‘‘ اور‘ ان کی اسی عادت کی وجہ سے ہمارا بھی چانس ہر بار نکل آتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک انٹرویو کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
حکومت ڈرون گرانا چاہتی ہے
تو ساتھ دیں گے... رحمن ملک
سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ ''حکومت اگر ڈرون گرانا چاہتی ہے تو ہم ساتھ دیں گے‘‘ جبکہ ہم نے ڈرون گرانے کی کوشش اس لیے نہیں کی تھی کیونکہ میاں صاحب نے ہمارا ساتھ نہیں دینا تھا حالانکہ وہ فرینڈلی اپوزیشن کے طور پر مسلسل ہمارا ساتھ دے رہے تھے اور یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے‘ خاص طور پر ہماری ترقی یافتہ جمہوریت کا‘ جس میں مل جل کر ہی سارا کام تمام کیا جاتا ہے لیکن افسوس کہ یہ نسخۂ کیمیا بہت بعد میں معلوم ہوا جو کہ سراسر زرداری صاحب کے ذہن رسا کی پیداوار ہے اور جو مفاہمتی پالیسی کے نام پر چار دانگِ عالم میں اپنا سکہ منوا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''کراچی کو غیر مستحکم کرنے کے لیے سازشیں کی جا رہی ہیں‘‘ حالانکہ اس کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کسی سازش کی ضرورت ہی نہیں ہے اور یہ اپنے آپ ہی اس راستے پر چل نکلا ہے‘ اور تسلی بخش رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے بلکہ ملک بھر میں یہ صحت افزا رجحان ترقی حاصل کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''آنے والے وقت میں ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہوگا‘‘ اگرچہ سست رفتاری کی وجہ سے اس وقت کا جلد آنا ذرا مشکل ہے۔ آپ اگلے روز کراچی ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
علاجِ تنگیٔ داماں بھی تھا!
ادبی کانفرنس کے کرتا دھرتا اور ہمارے دوست عطاء الحق قاسمی نے افتتاحی اجلاس کے خیر مقدمی الفاظ کے دوران قیمے کا ذکر کیا تو صدرِ محفل وزیراعظم میاں نوازشریف کی رگِ معدہ پھڑک اٹھی اور شاید اس کے ساتھ ہی انہیں صدر اوباما کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقات بھی یاد آ گئی جس میں انہوں نے موصوف کے سامنے نہ صرف دال قیمے کا ذکر کیا تھا بلکہ انہیں پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دے دی تھی جو خود بھی دال قیمہ کھانے کے لیے بیتاب تھے۔ تاہم وزیراعظم نے یہ استفسار کرنا ضروری سمجھا کہ قیمہ بڑا ہوگا یا چھوٹا‘ حالانکہ قیمہ تو قیمہ ہی ہوتا ہے وہ بڑا ہو یا چھوٹا؛ چنانچہ اس پر انہوں نے اس تقریب پر مسرت اور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آرٹ کونسل کے لیے دو کروڑ روپوں کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ شہباز صاحب سے بھی اس سلسلے میں سفارش کریں گے۔ البتہ اگر عطا قیمے کے ساتھ ساتھ روغن جوش‘ سری پائے اور بٹیروں وغیرہ کا بھی ذکر کر دیتے تو یہ رقم زیادہ بھی ہو سکتی تھی ع
تُو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
آج کا مقطع
اے ظفرؔ وہ یار تھا کیسا کہ اُس کے نین نقش
خون میں شامل تھے‘ آنکھوں کے لیے نایاب تھے