"ZIC" (space) message & send to 7575

پنجاب حکومت کا ایک بہت اچھا کام

پٹواری نے رات کو بیوی سے کہا‘ میرا سامان تیار کردو‘ صبح میں نے دورے پر جانا ہے‘ صاحب بھی ساتھ ہوں گے! اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پٹواری حضرات اپنے آپ کو کس مقام اور مرتبے کا مستحق سمجھتے ہیں؛ چنانچہ لاہور ہی میں کئی کروڑ پتی بلکہ ارب پتی پٹواریوں کا سراغ ملا ہے جو بالعموم لاہور ہی میں ملازمت کے دوران کارکردگی دکھاتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔ محکمہ بحالیات میں جو اودھم مچایا گیا یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔ لاہور کے گردونواح میں متروکہ سمیت سینکڑوں ایکڑ سرکاری اراضی موجود تھی لیکن پٹواری حضرات نے جگہ جگہ ملکیت کا خانہ ہی تبدیل کردیا اور فرضی نام درج کر کر کے آگے بیچنا شروع کردی‘ حتیٰ کہ اب بھی ایسی سرکاری اراضی موجود ہے‘ سرکار جس سے بالکل بے خبر ہے۔ 
پٹواری کو اب بھی گائوں میں مرکزی حیثیت حاصل ہے‘ اور شاید اسی بنا پر ایک بڑھیا نے ڈپٹی کمشنر سے خوش ہو کر اسے دعا دی تھی کہ خدا تجھے پٹواری کرے؛ چنانچہ پٹواری سونے کی ایک ایسی کان ہے جس سے تحصیلدار سے لے کر دیگر افسران بالا تک دل کھول کر مستفید ہوتے ہیں۔ مزید برآں کسی وزیر وغیرہ کا ضلع میں دورہ ہو تو اس کے جملہ اخراجات بھی محکمہ مال کے ذمے ہوتے ہیں جس کا سرچشمہ بذاتِ خود پٹواری ہے۔ اس کے علاوہ عام انتخابات میں بھی سرکاری امیدوار کامیابی کے لیے زیادہ تر اسی محکمے کے اہلکاروں پر انحصار کرتا ہے۔ اسی لیے یہ طبقہ دل کھول کر اور بے خوف ہو کر اپنا کاروبار چلاتا ہے۔ 
مزید برآں‘ دیہہ میں پٹواری کی تعیناتی اور تبادلہ مقامی رکن اسمبلی ہی کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے جس کے سبب یہ لوگ زیادہ حوصلہ افزائی میں شرابور رہتے ہیں۔ چنانچہ تھانیدار ہو یا پٹواری‘ تحصیلدار وغیرہ انہی معززین کے تابع ہوتے ہیں اور یہ لاہور کی مثال ہے کہ سالہاسال تک پٹواری ایک ہی حلقے میں تعینات رہتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے خبر آئی تھی کہ کسی جگہ ایس پی کو ایک کانسٹیبل کا تبادلہ مطلوب تھا لیکن وہ مقدور بھر کوشش کے باوجود نہ کر سکا۔ یہی صورت پٹواری کی بھی ہے کہ اکثر اوقات اس کا مجاز افسر بھی اسے تبدیل کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔ اگر پٹواری کسی بدحرکتی کی وجہ سے معطل بھی ہو جائے تو تھوڑے ہی عرصے بعد اسی جگہ پر دندناتا نظر آئے گا جبکہ ان کے خلاف ہر انکوائری بھی ٹھپ ہو جاتی ہے‘ اس لیے کسی پٹواری کو سزا کی کوئی مثال خال خال ہی دستیاب ہوتی ہے۔ 
شہزاد احمد نے ایک بار احمد ندیم قاسمی کو سگریٹ پیش کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے چھوڑ دیئے ہیں‘ جس پر شہزاد بولے کہ قاسمی صاحب آپ ایک ہی اچھا کام کرتے تھے‘ وہ بھی چھوڑ دیا۔ تاہم پنجاب حکومت نے عالمی ادبی کانفرنس منعقد کروانے کے علاوہ جو اچھا کام کیا ہے وہ محکمہ مال کا ریکارڈ کمپیوٹرائز کرنے کا ہے جس سے پٹواری کی چودھراہٹ خاصی حد تک ختم ہو جائے گی کیونکہ اس کی زیادہ تر یافت،فرد ملکیت وغیرہ جاری کرنے سے ہی ہوتی ہے۔ چنانچہ اس پر عملدرآمد مکمل ہونے کے بعد نہ تو پٹواری کسی سے ناجائز رقم کا مطالبہ کر سکے گا اور نہ ہی ریکارڈ میں گڑبڑ۔ 
اسی دوران ایک حیران کن حد تک خوش گوار خبر نظر سے گزری جس کے مطابق مختلف جگہوں پر کرپشن اور فراڈ پر تحصیلداروں سمیت 38 ریونیو آفیسر اور اہلکار کھڈے لائن لگا دیئے گئے ۔ واضح رہے کہ ہمارے ہاں تھوک کے حساب سے یہ کام پہلی بار ہوا ہے جس کا سہرا سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب جناب ندیم اشرف کے سر جاتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق تحصیل خانپور میں تعینات تحصیلدار شوکت علی‘ جونیئر کلرک کلیم اللہ اور فیاض رسول کے خلاف نامناسب رویہ برتنے‘ کام میں غفلت اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے حوالے سے محکمانہ انکوائری آخری مراحل میں ہے۔ سابق تحصیلدار ڈسکہ محمد اقبال شاہد نے اعلیٰ عدالت کے حکام پر عملدرآمد نہ کیا جس پر اس کی ایک ماہ کی تنخواہ ضبط کر لی گئی ۔ 
تحصیلدار سید باقر حسین رضوی پر رشوت اور بداخلاقی کا الزام تھا‘ تحقیقات کے بعد ان کو برطرف کردیا گیا۔ محمود احمد بھٹی کو نالائقی اور بداخلاقی کے جرم میں تین سال کے لیے برطرف کردیا گیا۔ چودھری رضوان علی تحصیلدار سوہاوا کو دو سال کے لیے برطرف کردیا گیا۔ محمد رفیع ساہی تحصیلدار‘ پٹواری محمد ارشد اور مرید حسین رشوت اور بداخلاقی کا جرم ثابت ہونے پر نوکریوں سے فارغ کر دیئے گئے۔ تحصیلدار کو تین سال کے لیے برطرف کیا گیا۔ فتح جھنگ میں تعینات تحصیلدار ملک ظہیر حسین‘ محمد اشرف اور اکرم پٹواری کو رشوت وصولی اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر نوکریوں سے فارغ کردیا گیا۔ تحصیلدار میلسی شعیب بوسن‘ پٹواری خالد محمود اور مبارک علی کو اختیارات کے ناجائز استعمال پر برطرف کردیا گیا۔ دنیاپور کے تحصیلدار سید تنویر احسن اور رانا محمد یوسف تحصیلدار سمیت شیخ الطاف احمد قانونگو‘ خالد کریم اور اصغر علی پٹواری کو کرپشن پر دو سال کے لیے برطرف کردیا گیا۔ سلیم شریف سرکل آفیسر پنڈی اور پٹواری عبدالستار سے نہ صرف کروڑوں روپے کی ریکوری حاصل کی گئی بلکہ نوکریوں سے بھی فارغ کردیا گیا۔ آفتاب اقبال تحصیلدار ڈی جی خاں‘ سید منظور حسین نائب تحصیلدار اور محمد رفیق پٹواری کو کرپشن پر ایک سال کے لیے برطرف کیا گیا اور جرمانے بھی کیے گئے۔ تحصیلدار محمد علی کمیانہ کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لائی گئی۔ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پنجاب ندیم اشرف نے کہا ہے کہ مانیٹرنگ سسٹم فعال کر رہے ہیں اور محکمہ مال میں چھپی کالی بھیڑوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ عوام کو ریلیف دینے
والا سٹاف ہی اب اس محکمے میں رہے گا۔ ع 
ایں کار از تو آید و مرداں چُنیں کُنند 
ظاہر ہے کہ یہ نادر و نایاب کارروائی وزیراعلیٰ کے ایما پر ہی کی گئی ہے جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ جو افراد ایک دو یا تین سال کے لیے برخاست کیے گئے ہیں‘ اس کا کیا مطلب ہے۔ کیا انہیں یہ مدت پوری ہونے کے بعد پھر بحال کردیا جائے گا؟ یعنی برخاستگی کی یہ مدت پوری ہونے کے بعد یہ سب نہائے دھوئے گھوڑے ہو جائیں گے کیونکہ اس طرح کی سزا پہلے ہمارے علم میں نہیں ہے؛ تاہم یہ امید کی جاتی ہے کہ سفارش وغیرہ سے بے پروا ہو کر یہ کارروائی برقرار رکھی جائے گی تاکہ دوسروں کو بھی کان ہو جائیں ورنہ صورتِ حال تو یہ ہے کہ 'جیہڑا بھنّو لال اے‘‘ اور یہ کارروائی چونکہ صوبے کی سب سے بڑی ریونیو اتھارٹی کے حکم سے کی گئی ہے اس لیے اس میں تبدیلی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ صاحبِ موصوف کو دوسرے اضلاع کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ اس محکمے کا آوا پولیس سے بھی بڑھ کر بگڑا ہوا ہے۔ لیکن سوال پھر بھی یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کی آمد آمد کے موقع پر کیا وزراعلیٰ یہ ''راست اقدام‘‘ کر سکیں گے؟ ع 
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا 
آج کا مطلع 
ملا تو منزلِ جاں میں اُتارنے نہ دیا 
وہ کھو گیا تو کسی نے پکارنے نہ دیا 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں