لوٹ مار کر کے تجوریاں بھرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا... شہباز شریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''لوٹ مار کر کے تجوریاں بھرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا‘‘ کیونکہ یہاں پر تجوریاں بھرنا پرلے درجے کی حماقت ہے اور اس طرح کا پیسہ بیرون ملک بھجوا دینا چاہیے کیونکہ ہم حرام کا پیسہ ملک میں رکھنا برداشت نہیں کر سکتے۔ اس لیے محبِ وطن افراد اس گندگی کو ملک سے باہر لے جاتے ہیں تاکہ یہ ملک پاک صاف رہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کو نکیل ڈالوں گا‘‘ جس کے لیے کثیر تعداد میں نکیلیں تیار کرنے کا آرڈر دے دیا گیا ہے جو چند ماہ کے اندر ہی تیار ہو جائیں گی‘ لہٰذا اس وقت تک ذخیرہ اندوز حضرات اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ'' انتہا پسندوں کو بندوق نہیں‘ سماجی و معاشی اقدامات سے شکست دی جا سکتی ہے‘‘ اور جونہی ہم دیگر مسائل سے فارغ ہوتے ہیں‘ ان اقدامات کے بارے میں غورو خوض شروع کردیا جائے گا؛ چنانچہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی نوبت شاید ہمارے اگلے دورِ اقتدار میں ہی آئے‘ اس لیے عوام اور انتہا پسندوں کو صبر اور انتظار سے کام لینا چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
تحفظ پاکستان آرڈیننس پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے گا... پرویز رشید
وفاقی وزیر ا طلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''تحفظ
پاکستان آرڈیننس پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے گا‘‘ چنانچہ اس وقت تک ملک کو اپنا تحفظ خود کرنا ہوگا تب تک ہم چیئرمین نادرا کی طرح کچھ دیگر ناپسندیدہ عناصر کا مکّو ٹھپنے سے فارغ ہو جائیں گے جو ملکی مفاد کے خلاف کام کر رہے ہیں اور ہاتھ ہولا رکھنے سے صاف انکاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قوانین بنا رہے ہیں‘‘ جن کے بنتے ہی دہشت گردی ختم ہو جائے گی کیونکہ دہشت گرد اسی انتظار میں ہیں کہ یہ قانون بنے اور وہ اپنا بوریا بستر لپیٹ کر کسی دیگر دھندے میں لگ جائیں اور امید ہے کہ کرپشن کے خاتمے والے قانون کی طرح یہ قانون بھی اپنے مناسب وقت پر بن جائے گا اس لیے دہشت گرد اس سے عبرت حاصل کرنے کے لیے تیار رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''کوئی غیر آئینی اقدام نہیں اٹھائیں گے‘‘ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ عدالتیں ہمارے آئینی اقدامات کو بھی معطل کردیتی ہیں‘ اور طارق ملک جیسے لوگ بدستور دندناتے نظر آتے ہیں‘ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ آخر اس ملک کا کیا بنے گا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی جماعت نہیں
سوچ کا نام ہے... منظور وٹو
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی جماعت نہیں‘ ایک سوچ ہے‘‘ اور وہ سوچ صرف اورصرف یہ ہے کہ دورانِ اقتدار جملہ معززین ملک کی خدمت کے لیے کمرِ ہمت کس کر باندھ لیں اور اندھا دھند اسی میں لگے رہیں‘ میڈیا اور مخالفین کے سینے پر مونگ دلتے رہیں‘ اور تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھواتے رہیں جو اپنی مدد آپ کے آفاقی مقولے کے بھی عین مطابق ہے کیونکہ خدا بھی انہی کی مدد کرتا ہے جو سارے کام چھوڑ کر اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرتے رہیں؛ چنانچہ اللہ میاں کسی کی محنت ضائع نہیں کرتے اور ایسے جفا کش لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنے آپ کو اس کارِ خیر کے لیے وقف کرتے ہوئے جمہوریت کے ثمرات سمیٹنے میں دن رات مشغول رہتے ہیں‘ اور یہ سوچ کے نام سے اس لیے بھی منسوب ہے کہ سارا کام انتہائی سوچ سمجھ اور منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جاتا ہے تاکہ خدمت کے اس کام میں کسی طرف سے بھی کوئی کمی نہ رہ جائے اور جس کا نتیجہ ماشاء اللہ سب کے سامنے ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
عالمی مالیاتی اداروں نے ہماری
ناکہ بندی کر رکھی ہے... فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''عالمی مالیاتی اداروں نے ہماری ناکہ بندی کر رکھی ہے‘‘ جیسا کہ حکومت نے ہماری جماعت کی ناکہ بندی کر رکھی ہے اور ملک و قوم کی خدمت کا موقع نہیں دیا جا رہا جو کہ وزارتوں کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے جبکہ کشمیر کمیٹی کی صدارت خاکسار کو اب تک یاد کرتی ہے اور میں خود اس کی انتہائی خوشگوار یادوں کو سینے سے لگائے پھرتا ہوں اور کسی کام میں جی ہی نہیں لگتا‘ حتیٰ کہ کھانا پینا بھی چھوٹ گیا ہے اور روزے کی کیفیت طاری رہتی ہے جس سے ثواب تو حاصل ہوتا ہی رہتا ہے لیکن ثواب ماشاء اللہ پہلے ہی اس قدر اکٹھا ہو چکا ہے کہ مزید کی اب گنجائش ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان آج بھی سیاسی‘ معاشی اور اقتصادی طور پر آزاد نہیں‘‘ حتیٰ کہ خاکسار بھی آج کل ان آزادیوں سے بُری طرح محروم ہے جبکہ معاشی اور اقتصادی آزادی تو جیسے اب خواب ہی ہو کر رہ گئی ہے جس کا جلد از جلد کوئی نہ کوئی انتظام ہونا چاہیے ورنہ اتنے لمبے چوڑے خرچے کیوں کر پورے ہوسکتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاڑکانہ میں ایک دستارِ فضیلت تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
شاہین مفتی
ماہنامہ ''بیاض‘‘ حسب معمول عین وقت پر چھپ کر شائع ہو گیا ہے جس میں انتظار حسین‘ جلیل عالی‘ زاہد مسعود‘ امجد اسلام امجد‘ آصف ثاقب‘ اعجاز کنور راجہ‘ شاہین عباس اور دیگر خواتین و حضرات کی تحریریں شامل ہیں جن میں سے شاہین
مفتی کی خوبصورت غزل کے یہ شعر دیکھیے:
اتنی تفصیل میں جانے کی ضرورت کیا ہے
دُور تک خاک اُڑانے کی ضرورت کیا ہے
اُڑتے اُڑتے یونہی تھک ہار کے گر جائے گا
اس پرندے کو ٹھکانے کی ضرورت کیا ہے
جس کے رستے میں سدا خار بچھائے‘ اس کی
قبر پر پھول چڑھانے کی ضرورت کیا ہے
گھر کی تقسیم میں جو وجہ ضمانت ٹھہری
اب وہ دیوار گرانے کی ضرورت کیا ہے
چار سُو ایک ہی تصویر نظر آنے لگی
اب کسی آئینہ خانے کی ضرورت کیا ہے
رونق بزم جہاں تھی تو تمہارے دم سے
تم نہیں ہو تو زمانے کی ضرورت کیا ہے
آج کا مقطع
اک آغاز سفر ہے اے ظفر یہ پختہ کاری بھی
ابھی اس پُختگی کو میں نے اک دن خام کرنا ہے