سہ ماہی ''دُنیا زاد‘‘ کا شائع ہونا ہمیشہ سے ایک خبر کی حیثیت رکھتا ہے‘ چنانچہ میں یہ خبر بھی دے رہا ہوں اور خبردار بھی کر رہا ہوں! یہ اس کتابی سلسلے کا 39واں شمارہ ہے جس کا عنوان مُنیب الرحمن کی نظم کے ایک مصرعے''آرزو ہے کہ زندگانی ہے ‘‘کو بنایا گیا ہے جو اپنی جگہ پر بس واجبی سی ہے۔ بلکہ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ بیشتر نظموں کی صورت اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ مسئلہ شاید یہ ہے کہ غزل اورینٹڈ قاری جو ایک بہت بڑی اکثریت میں ہیں‘ نظم کو بھی غزل ہی کی طرح پڑھ کر لطف اندوز ہونا چاہتے اور نتیجتاً مایوس ہوتے ہیں کیونکہ انہیں نظم سے غزل کی طرح کی تاثیر اور تازگی دستیاب نہیں ہوتی۔ دوسری مشکل شاید یہ بھی ہو کہ نظم کے مطالبہ میں دل کے ساتھ ساتھ دماغ کو بھی بروئے کار لانا ہوتا ہے۔ دوسری بلکہ تیسری بات یہ ہے کہ پابند نظم کا زمانہ اب گزر چکا ہے اور اس کی جگہ آزاد اور نثری نظم چوکڑی جما کر بیٹھ گئی ہے! حصہ نظم میں منیب الرحمن کے علاوہ زہرہ نگاہ‘ فہمیدہ ریاض ‘کشور ناہید‘ ابرار احمد‘ عذرا عباس‘ تنویر انجم اور دیگران شامل ہیں۔
مضامین میں شمیم حنفی ‘اسلم سراج الدین ‘شمس الرحمن فاروقی‘احتشام علی‘تصنیف حیدر ‘ ناصر عباس نیّر اور خاکسار کی تحریریں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ محمد حمید شاہد اور آصف فرخی کی نگارشات بھی مضامین ہی کی ذیل میں آتی ہیں۔ تراجم کے سلسلے میں فہمیدہ ریاض‘خود آصف فرخی‘سعید نقوی‘ سید کاشف رضا موجود ہیں جبکہ ایلس منرو 'دھماکے کے ساتھ رخصت‘ فرانز کا فکا 'کایا کلپ کی ایک نئی کایا کلپ‘ درخت احتجاج اور پامک اور 'ایلس منرو کے لیے نوبل انعام کا راستہ آسان نہ تھا‘ پر مصنف یا مترجم کا نام درج نہیں۔ وضاحت کی ضرورت کے نام سے ساقی فاروقی کا ایک خط شامل ہے جو انہوں نے کبھی جریدہ ''سمبل‘‘ کے ایڈیٹر ‘شاعر علی محمد فرشی کے نام بھجوایا تھا۔ یہ رسالہ عرصے سے شائع نہیں ہوا جس کی وجہ سے یہ مکتوب وہاں نہیں چھپ سکا تھا۔ خدا رحمت کند ایں پاک طینت را
افسانوں کا حصہ بھی خاصا وقیع ہے جس میں خالدہ حسین‘زاہدہ حنا‘ انور سن رائے‘ ذکیہ مشہدی‘ اور مبشر علی زیدی شامل ہیں۔ آصف فرخی نے ''دمِ تحریر‘‘ کے عنوان سے اس سفر کا حال تفصیل سے بیان کیا ہے جو انہوں نے انتظار حسین کے ہمراہ ‘ جن کا نام ایوارڈ کے لیے چُنیدہ دس اُمیدواروں میں شامل تھا اور جو پانچویں انٹرنیشنل بُکر پرائز کے سلسلے میں اختیار کیا تھا اور جس کا قُرعۂ فال امریکی مصنفہ اور مترجم لیڈی ڈیوس کے نام نکلا اور جس پر محمد حمید شاہد نے اپنے مضمون میں دل کی بھڑاس خوب نکالی ہے۔ اس پر چے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں برادرم انتظار حسین کی کوئی تحریر شامل نہیں اور پرچہ سُونا سونا سا لگتا ہے۔ یہ سطور لکھ رہا تھا کہ کراچی سے میرے پسندیدہ شاعر محبوب خزاں کے انتقال کی افسوسناک خبر آ گئی جو کافی عرصے سے صاحبِ فراش تھے۔ اُن کی غالباً ایک ہی پتلی سی کتاب ''اکیلی بستیاں‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ انہوں نے بہت کم اور بہت سُتھرا لکھا اور غزل میں اپنی ایک الگ پہچان بنانے میں کامیاب رہے۔ ان کے دو تین شعر سنیے جو یاد رہ گئے ہیں۔
ایک محبت کافی ہے
باقی عُمر اضافی ہے
بات یہ ہے کہ آدمی شاعر
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
درد اتنا نہیں کہ تم سے کہیں
حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں
میرے شب و روز پر اتنی توجہ ہے کیوں
اپنے شب و روز سے آپ کو فرصت ہے کیا
کچھ دن پہلے اسلم سراج الدین کی رحت کی خبر آ گئی ع
خدا رحمت کُند ایں عاشقانِ پاک طینت را
حصہ غزل اس دفعہ زیادہ جاندار ہے‘ کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے:
بِن تمہارے جس جگہ جاتا ہوں میں
بادلِ ناخواستہ جاتا ہوں میں
وہ گلی ممنوع ہے باضابطہ
اس لیے بے ضابطہ جاتا ہوں میں
کیوں نہ رشک اپنی زندگی پہ کروں
پہلے میری تھی اب تمہاری ہے
تم ملے ہو نہ مل سکو گے ہمیں
آرزو بے سبب تمہاری ہے
اپنی دُنیا بنائو اب دُنیا
کب ہماری ہے‘ کب تمہاری ہے
(انور شعور)
کیوں سب کو اچھے لگتے ہو
راز کرو یہ فاش کسی دن
کُھل جائیں گی شہر کی آنکھیں
بولے گی یہ لاش کسی دن
سچ تو یہ ہے کہ جیون کا ہے یہی سبھائو
مچھلی بن جائو یا جل یا جال رہو
(اکبر معصوم)
کچھ روشنی تھی چاروں طرف جو کہ رواں کی
پھر یاد نہیں ہم نے تری آگ کہاں کی
یہ جو دروازہ ہے بے کار میں کب کُھلتا ہے
کچھ نہ کچھ شہر کو ہو جاتا ہے جب کھُلتا ہے
یہ اندھیرا ہے اور ایسے ہی نہیں کُھلتا یہ
دیر تک روشنی کی جاتی ہے‘تب کھلتا ہے
یہ صحن گواہ ہے ہمارا
اس گھر میں بھی دربہ در گئے ہم
(شاہین عباس)
ہم کو منظور نہیں پھر سے بچھڑنے کا عذاب
اس لیے تجھ سے ملاقات نہیں چاہتے ہم
کب تلک در پہ کھڑے رہنا ہے‘اُن سے پوچھو
کیا وہ محشر کا تماشا بھی یہیں چاہتے ہیں
(ممتاز گورمانی)
بھنور پیروں میں تھے جب تک تو سر میں کہکشائیں تھیں
سفر چھوٹا ہے کیا ہم سے‘گئے رخصت ِ سفر سے بھی
(سید سلمان ثروت)
آج کا مقطع
ماندہ تختے بھی 'ظفر‘ بیچ کے بیٹھا ہے جو شخص
ٹوٹی کشتی کو بچانے کے لیے آیا تھا