پارلیمنٹ کی بالادستی پر سمجھوتہ
نہیں کریں گے... نواز شریف
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ ''پارلیمنٹ کی بالادستی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے‘‘ کیونکہ سمجھوتے کرتے کرتے تنگ آ گئے ہیں کہ آخر کس کس چیز پر اور کب تک سمجھوتہ کیا جائے‘ اگرچہ سمجھوتہ کرنے سے مسئلہ کچھ دیر کے لیے ٹل جاتا ہے اور ذرا آسانی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ سمجھوتے کا تعلق ویسے بھی سمجھ کے ساتھ ہے جبکہ سمجھداری شروع ہی سے اپنا طرۂ امتیاز چلا آ رہا ہے‘ ماشاء اللہ‘ چشم بددور! انہوں نے کہا کہ ''پاکستان خطے میں امن و امان کے لیے ایک کردار ادا کر رہا ہے‘‘ لیکن اس سلسلے میں پاکستان کی اپنی باری ابھی نہیں آئی‘ چنانچہ جونہی خطے میں امن و امان مکمل طور پر قائم ہو جاتا ہے‘ پاکستان کی طرف بھی توجہ مبذول کی جائے گی‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردی کی لعنت ختم کرنے کے لیے جامع حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے‘‘ جو انشاء اللہ ہم اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے پہلے ضرور کر لیں گے کیونکہ ماشاء اللہ اتنی حکمت عملیاں تیار کی جا رہی ہیں کہ ایک کے بعد دوسری کی باری آنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں جنرل راشد‘ ایاز صادق اور جرمن چانسلر کے مشیر سے گفتگو کر رہے تھے۔
سبزیوں اور دالوں کی پیداوار کے اہداف مقرر کیے جائیں... شہباز شریف
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''سبزیوں اور دالوں کی پیداوار کے اہداف مقرر کیے جائیں‘‘ اور یہ کام انشاء اللہ بہت جلد سرانجام پا جائے گا جس سے ان اشیاء کی پیداوار میں اضافہ ہو گا اور یہ سستی ہو جائیں گی جبکہ ان کی مہنگائی میں تاجروں‘ ذخیرہ اندوزوں اور دکانداروں کا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ یہ آئے دن اپنے آپ ہی مہنگی ہوتی رہتی ہیں جس سے دکاندار حضرات خود بھی حیران ہو کر رہ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پنجاب پورے پاکستان کے لیے گرین باسکٹ ہے‘‘ لیکن یہ کام اب دوسرے صوبوں کو بھی کرنا چاہیے کیونکہ ہم لاہور کی گولڈن باسکٹ کو چمکانے وغیرہ کے سلسلے میں مصروف ہو گئے ہیں اور جونہی اس سے فارغ ہوتے ہیں‘ سکولوں‘ ہسپتالوں اور پینے کے پانی جیسے منصوبوں پر کام شروع کر دیں گے تاکہ میٹرو بس وغیرہ کی طرح یہ بھی یادگار رہ جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''سبزیوں‘ دالوں کے ساتھ گوشت‘ چکن‘ بیف‘ دودھ اور انڈوں کی قیمتوں میں بھی استحکام پیدا کیا جائے‘‘ اگرچہ ان میں پہلے ہی اس قدر استحکام پیدا ہو چکا ہے کہ یہ عوام کی پہنچ سے باہر ہو گئے ہیں جبکہ خواص بے چارے ہی ان چیزوں کو خریدنے پر مجبور ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
تہذیب حافی
نوجوان اور ابھرتے ہوئے شاعر تہذیب حافیؔ کے اشعار سہ ماہی ''دنیازاد‘‘ پر تبصرے میں کل جگہ کی تنگی کے باعث شامل ہونے سے رہ گئے تھے جو آج پیش کیے جا رہے ہیں:
آوازوں کا حبس اگر بڑھ جاتا ہے
خاموشی مجھ میں دروازہ کرتی ہے
میں اُس کی خوشبو کو اوڑھا کرتا ہوں
وہ میری آوازیں پہنا کرتی ہے
ساری عمر اسی خواہش میں گُزری ہے
دستک ہو گی اور دروازہ کھولوں گا
رات بہت ہے‘ تم چاہو تو سو جائو
میرا کیا ہے‘ میں دن میں بھی سو لوں گا
تم کو دل کی بات بتانی ہے‘ لیکن
آنکھیں بند کرو تو مٹھی کھولوں گا
میں تو آنکھیں دیکھ کے ہی بتلا دوں گا
تم میں سے کس کس نے دریا دیکھا ہے
چیختے ہیں درودیوار نہیں ہوتا میں
آنکھ کھلنے پہ بھی بیدار نہیں ہوتا میں
کون آئے گا یہاں میری عیادت کے لیے
بس اسی وجہ سے بیمار نہیں ہوتا میں
سفرِ عشق میں نکلا تو کہا رستے نے
ہر کسی کے لیے ہموار نہیں ہوتا میں
اب بھلا اپنے لیے بننا سنورنا کیسا
خود سے ملنا ہو تو تیار نہیں ہوتا میں
جب کسی ایک کو رہا کیا جائے
سب اسیروں سے مشورہ کیا جائے
رو لیا جائے اپنے ہونے پر
اپنے مرنے پہ حوصلہ کیا جائے
تم چاہتے ہو تم سے بچھڑ کر بھی خوش رہوں
یعنی ہوا بھی چلتی رہے اور دیا جلے
تُو کہیں اور ڈھونڈتا رہے گا
ہم کہیں اور ہی کھِلے رہیں گے
ایک مدت ہوئی ہے تجھ سے ملے
تُو تو کہتا تھا رابطے رہیں گے
آج کا مقطع
جو کہہ رہا ہوں کسی اور کی ہے بات‘ ظفرؔ
جو کر رہا ہوں یہاں کام بھی نہیں میرا