بھتے کی پرچیاں کسی صورت برداشت
نہیں کروں گا... شہباز شریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''میں بھتے کی پرچیاں کسی صورت برداشت نہیں کروں گا‘‘ کیونکہ جب یہ کام فون کے ذریعے بھی سرانجام دیا جا سکتا ہے تو پرچیوں پر کاغذ ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ ملک میں کاغذ کی پہلے ہی بہت کمی ہے اور جو تھوڑا بہت بچ رہا تھا وہ نامزدگی کے فارم وغیرہ چھاپنے میں خرچ ہو جائے گا جبکہ اسی کفایت شعاری کی خاطر ہم بلدیاتی الیکشن کے حق میں نہیں تھے کہ اس سے ارکان اسمبلی کی ناراضی کاغذ کے قحط سے بھی کہیں زیادہ تشویش انگیز ہے جن کے معصوم سے اختیارات نچلی سطح کے لوگوں کو منتقل ہو جائیں گے اور انہیں اسمبلی رکنیت کے ساتھ شاید ہدوانے بھی لگانا پڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''قیمتوں کے استحکام کے لیے منظم نظام بنایا ہے‘‘ آگے یہ کام کرنا ہے یا نہیں‘ یہ اس کی مرضی کی بات ہے جیسا کہ دوسرے نظاموں کی حالت سے ظاہر ہے جبکہ دیگر کارہائے نمایاں خفیہ سے وقت نکال کر یہ نظام بنا دینے ہی کو غنیمت سمجھنا چاہیے کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی کام ہو سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں خطاب‘ گفتگو اور سعودی سفیر سے ملاقات کر رہے تھے۔
بندوق سے امن قائم
نہیں ہو سکتا... فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا
ہے کہ ''بندوق سے امن قائم نہیں ہو سکتا‘‘ جس طرح محض حیدری صاحب کو وزیر مملکت بنانے سے ہماری حقرسی نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ اس سے کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی ملنے کے امکانات تقریباً صفر ہو کر رہ گئے ہیں جبکہ تربوزوں کا موسم ہی ختم ہو گیا ہے ورنہ کہیں تربوز لگا کر ہی بیٹھ جاتا جبکہ نسوار اب کوئی منافع بخش کاروبار نہیں رہا اور جس چیز میں اندھا دھند منافع نہ ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اسی لیے کسی معقول منصب کے لیے مخلصانہ کوششیں جاری رکھے ہوئے تھا‘ لیکن ابھی قسمت یاوری نہیں کر رہی اور ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی مجھے مزید خوشحال ہوتے نہیں دیکھ سکتی اور حکومت کی طرح وہ بھی میری ترجیحات کو نظرانداز کر رہی ہے‘ اس لیے صبر کر رہا ہوں کیونکہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے جس کے لیے ہر شریف آدمی کی رال ٹپکتی رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ملکی خودداری دائو پر لگا دی گئی ہے‘‘ جبکہ خاکسار کی خودداری کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جا رہا ہے کیونکہ حکومت کو اپنے مطالبات یاد دلا دلا کر اپنی خودداری کا بھی بُرا حال کر لیا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت ملکی اور عالمی سطح پر قومی
تشخص بحال کرے... منظور وٹو
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ''حکومت قومی اور عالمی سطح پر ملکی تشخص بحال کرے‘‘ جسے ہم نے اپنے نیک اعمال کی وجہ سے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا تھا حتیٰ کہ صرف ملکی تشخص باقی رہ گیا تھا‘ باقی جو کچھ بھی تھا‘ دیکھتے ہی دیکھتے اِدھر اُدھر ہو گیا تھا جبکہ یہ بھی ہماری سرتوڑ کوششوں ہی کا نتیجہ تھا جو ملک کی بہتری کے لیے اپنے حالات درست کر رہے تھے تاکہ تگڑے اور اچھی طرح صحت مند ہو کر ملک کی خدمت کر سکیں لیکن ہمارے صحت مند ہونے کے ساتھ ساتھ ہی ملک بیمار ہوتا چلا گیا‘ اور یہ خدائی فیصلے ہیں جن سے روگردانی نہیں کی جا سکتی جو چاہے تو شاہوں کو گدا کردے اور گدائوں کو مالا مال کر دے؛ تاہم ہماری دعائیں ملک کے ساتھ ہیں کہ ہماری طرح خدا ان کے بھی دن پھیر دے۔ انہوں نے کہا کہ ''پیپلز پارٹی نے ہر سطح پر ملکی مفاد کا خیال رکھا‘‘ جبکہ ملک اور ہم جملہ مساکین کا مفاد ایک ہو کر رہ گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''آئندہ بھی پارٹی کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی‘‘ کیونکہ دولت کی ریل پیل ہونے سے بڑھ کر بدنصیبی اور قربانی اور کیا ہو سکتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی عہدیداروں سے خطاب کر رہے تھے۔
عام انتخابات کی ساکھ ختم
ہو چکی ہے... اعتزاز احسن
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ''عام انتخابات کی ساکھ ختم ہو چکی ہے‘‘ اور اگر گیس کوٹے کے بارے میں اسی طرح کے فیصلے آتے رہے تو عدلیہ کی ساکھ کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ اگرچہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد سرنگ کے آخری سرے پر روشنی کی ایک رمق دکھائی دے رہی ہے لیکن اگر جاتے جاتے وہ دوسروں کو بھی کوئی پٹی پڑھا گئے تو پرنالہ وہیں رہنے کا خدشہ ہے کیونکہ زرداری صاحب سمیت بھائی لوگوں کے مقدمات بھی ایک ایک کر کے کھولے جا رہے ہیں جو ایک اور طرح کا پینڈورا باکس ہوگا‘ حالانکہ جنرل مشرف کے ٹرائل سے جو یہ باکس کھلے گا‘ بہت سے حضرات کے لیے وہی کافی ہوگا اور نیا کھولنے کی بات ملکی مفاد کے سراسر خلاف ہوگی‘ اور کوٹے والے خواتین و حضرات سے منافع میں حاصل کی گئی رقوم کی واپسی شریف لوگوں کو خواہ مخواہ پریشان کرنے والی بات ہے جبکہ میں تو شاعر آدمی ہوں‘ واجبات کی جگہ اپنا تازہ کلام ہی پیش کر سکتا ہوں لیکن ایسا لگتا ہے کہ وصولی کرنے والے کچھ اتنے باذوق واقع نہیں ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ سے باہر پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
سینیٹرز کو دی جانے والی دھمکیاں
گیدڑ بھبکیاں ہیں... پرویز رشید
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''سینیٹرز کو دی جانے والی دھمکیاں گیدڑ بھبکیاں ہیں‘‘ اور یہ نہایت کم ہمتی اور بزدلی کی بات ہے کیونکہ جو کام کرنا ہو‘ آگے بڑھ کر کر لینا چاہیے‘ دھمکیاں دینے کا کیا فائدہ ہے جبکہ انہیں دینے کے لیے لاتعداد گیدڑوں کی بھی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں حالانکہ گیدڑوں کی تعداد پہلے ہی ملک میں بہت کم رہ گئی ہے جس پر ہم سب بہت تشویش میں مبتلا ہیں کیونکہ اُن کی جگہ آوارہ کتوں نے لے لی ہے جو سڑکوں پر دندناتے پھرتے ہیں لیکن ان کا حکومت کے پاس کوئی علاج نہیں جبکہ انہوں نے کتے کی موت مرنا بھی چھوڑ دیا ہے اور صرف بھوک سے یعنی انسانوں کی موت مرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''مشرف جب صدر تھے‘ تب بھی دھمکیاں دیتے تھے‘‘ لیکن عملی طور پر اُن سے کچھ بھی نہ ہو سکا‘ ماسوائے آئین کو معطل کرنے اور ایمرجنسی لگانے کے۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ شرم کی بات ہے‘‘ کیونکہ اس کے متبادل کے طور پر بھی کئی اقدامات ہو سکتے تھے کیونکہ شرم تو ہم سب کے لیے ایک اجنبی چیز ہو کر رہ گئی ہے‘ گیدڑوں کی طرح۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
ظفرؔ، جانے کی جلدی تھی کچھ اتنی
کہ پیچھے رہ گیا سامان سارا