دیکھتا ہوں مجھے کون گرفتار
کرتا ہے... گیلانی
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''دیکھتا ہوں مجھے کون گرفتار کرتا ہے‘‘۔ اگرچہ میں نے اپنے وکیل کو پہلے ہی نیب میں پیش ہونے کے لیے کہہ دیا ہے لیکن ذرا شُوں شاں تو ہونی ہی چاہیے‘ ویسے بھی میرا مطلب یہ تھا کہ جو بھی گرفتار کرنے کے لیے آئے‘ نقاب پہن کر نہ آئے تاکہ میں اسے دیکھ بھی سکوں‘ مزید برآں اگر میرے جیسی اچھی بھلی اور موٹی تازی اسامی کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے تو یہ سر پھری پولیس گرفتار بھی کر سکتی ہے حالانکہ میں نے اپنے ہی جیسے نیک خصال آدمیوں کو تعینات کیا تھا جن کے اعلیٰ کردار کی وجہ سے ہر کوئی ان سے حسد کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''چیئرمین خود مطلوب ہیں‘ مجھے کیسے گرفتار کر سکتے ہیں‘‘ البتہ پولیس کی بات اور ہے اور جس کے ہاتھ مجھے پہلے بھی لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''لگتا ہے اس حکومت کا میں پہلا سیاسی قیدی ہوں‘‘ حالانکہ میں نااہل قرار پانے کے ساتھ ہی غیر سیاسی ہو گیا تھا کیونکہ الیکشن لڑنا میرے لیے ایک خواب ہو کر رہ گیا ہے۔ آپ اگلے روز ملتان میں نیب کا نوٹس ملنے کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
جی ایس پی پلس کا درجہ پیپلز پارٹی کی کاوشوں سے ملا... زرداری
سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''جی ایس پی پلس کا درجہ پیپلز پارٹی کی کاوشوں سے ملا‘‘ جبکہ ہماری اصل کاوشیں تو وہ تھیں جن کے ذریعے ہم نے یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ رحمن ملک اور دیگر لاجواب وزیر قوم کو تحفے کے طور پر دیئے جنہوں نے جمہوریت کو چار چاند لگائے اور اسی اثناء میں ایک دو چاند اپنے آپ کو بھی لگا لیے جن کی روشنی سے وہ آج بھی جگ مگ جگ مگ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''خوشی ہے کہ ہمارے اقدامات کا پھل مل گیا‘‘ اور یہ اس پھل کے علاوہ ہے جس کے کریٹ کے کریٹ ہمیں میسر آ گئے تھے اور یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پیپلز پارٹی کی کاوشیں رنگ لے آئیں‘‘ حالانکہ ہماری کاوشیں کچھ اور ہی تھیں جن کا ڈنکا زمانے بھر میں بجتا رہا ہے اور جس کا شور فضائوں میں ابھی تک گونج رہا ہے اور یہ موسیقی تادیر سنائی دیتی رہے گی کیونکہ یہ ڈنکا ماشاء اللہ اندھا دھند بجایا گیا اور دونوں ہاتھوں سے بجایا گیا تاکہ ملک بھر میں موسیقی کے شوقین افراد اس سے لطف اندوز ہو سکیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
توانائی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے جہاں بھی جانا پڑا‘ جائوں گا... شہباز شریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''توانائی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے جہاں بھی جانا پڑا جائوں گا‘‘ کیونکہ بھائی صاحب جو ملکوں ملکوں سیر سپاٹے کرتے پھرتے ہیں اور اب تو مجھے ساتھ لے کر بھی نہیں جاتے‘ تو ایسی پکنک وغیرہ سے لطف اٹھانے کا حق مجھے بھی حاصل ہے کیونکہ دیگر معاملات ازخود ہی چلتے رہیں گے کہ یہ ملک ہی ماشاء اللہ آٹو میٹک ہے اور شُتر بے مہار کی طرح اپنے آپ ہی چلتا رہتا ہے اور ساری دنیا اس پر حیران بھی ہے‘ بیشک یہ امریکہ کے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے ہی چلتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ ''اندھیروں کو شکست دینے میں جلد کامیاب ہو جائیں گے‘‘ تاہم بہتر ہے کہ اندھیرے خود ہی ہتھیار ڈال دیں کیونکہ ہم امن پسند اور صلح جُو آدمی ہیں اور لڑائی بھڑائی کو پسند نہیں کرتے؛ تاہم احتیاطاً اندھیروں کو شکست دینے کے لیے برخوردار حمزہ شہباز کی سربراہی میں ایک فوج تیار کی جا رہی ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ اس کا اُلٹا اثر ہم پر ہی پڑ جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہر ملک کا تعاون حاصل کروں گا‘‘ کیونکہ ہمارا سارا کاروبار دوسروں کے تعاون ہی سے چل رہا ہے۔ آپ اگلے روز ہریانہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
افضال نوید
افضال نوید ان آٹھ دس جدید شعراء میں شامل ہے جنہیں میں نے اپنے طور پر شارٹ لسٹ کر رکھا ہے۔ آپ کافی عرصے سے کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں اور کبھی کبھار وطن کی محبت انہیں یہاں بھی کھینچ لاتی ہے۔ تاہم اس دفعہ اس محبت کے علاوہ انہیں اپنے تازہ مجموعۂ کلام کی اشاعت بھی مطلوب تھی جو بالآخر بُک ہوم لاہور نے ''افلاک لیے پھرتا ہوں‘‘ کے نام سے چھاپ دیا ہے جس کی قیمت 500 روپے رکھی گئی ہے۔ اس کی رونمائی کی تیاریاں بھی ہو رہی ہیں۔ کتاب کا پسِ سرورق ہمارے معروف نظم نگار زاہد مسعود نے لکھا ہے جس میں شاعر کے وفور اور تازہ کاری کا دل کھول کر اعتراف کیا گیا ہے۔ اندرونی فلیپ ڈاکٹر ستیہ پال آنند اور اشعر ہاشمی نے تحریر کیے ہیں‘ مجموعہ صرف غزلوں پر مشتمل ہے‘ اس کے چند شعر دیکھیے:
محسوس کیا جائے تو ہے پائوں کے نیچے
اور ڈھونڈنے نکلو تو زمیں ملتی نہیں ہے
معلوم ہی نہیں کہاں پڑتا ہے کیا قدم
جو آج میں ملی ہوئی ہے کل کی نیند ہے
سحر ہوئی تو برابر کا باغ خالی تھا
گلاب ٹوٹے پڑے تھے زمین پر ہرجا
اور کہیں پر بہتی رہتی ہے ندی
اور کہیں پر ڈوبنے جانا پڑتا ہے
کن درختوں کا تجھ پہ سایہ تھا
پائوں میں بچھ رہی تھی گھاس ترے
یہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں صدیوں سے
ندی کہاں سے‘ صنوبر کہاں سے آیا ہے
میں پایۂ تکمیل کی ٹھوکر سے گرا ہوں
مٹی مری ٹوٹے ہوئے تاروں سے بھری ہے
اپنے پیکر میں پلٹ جانا نہیں تھا ممکن
اپنی مشکل کا مجھے بعد میں اندازہ ہوا
کہاں نویدؔ ہے کچھ اور کہاں نہیں کچھ بھی
نجانے کیا ہو وہاں پر جہاں نہیں کچھ بھی
آج کا مقطع
عمر بھر دیکھا کیے اندر کے ہنگامے‘ ظفرؔ
آج کچھ کچھ یاد پڑتا ہے کوئی باہر بھی تھا