نازؔ خیالوی مرحوم نے جو قابلِ ذکر ترکہ چھوڑا ہے ''لہو کے پھول‘‘ کی صورت میں وہ ایک کتاب ہے جس کا مسودہ میرے زیرِ نظر ہے۔ آپ استاد احسان دانش کے شاگرد تھے اور زیادہ تر انہی کے تتبع میں لکھا، لیکن میرے خیال میں شاگرد کے اشعار استاد سے زیادہ توجہ طلب ہیں۔ اگرچہ روایتی شاعری کا اب زمانہ نہیں ہے، شاعری کا فیشن یکسر تبدیل ہوگیا ہے اور اس شاعری میں جدید طرزِ احساس کا ذائقہ نہیں ملتا‘دل کو ٹھاہ کر کے لگنے والے اشعار اس کے ہاں بھی کثرت سے نہ سہی‘ ایک معقول تعداد میں ضرور دستیاب ہیں۔
اگرچہ بے کار اور بے سود شاعری ہمارے ارد گرد بے حساب ہو رہی ہے اور جس کے پڑھنے والے بھی اسی مقدار میں موجود ہیں لیکن روایت کے اندر رہتے ہوئے بھی ایسی شاعری تخلیق ہو رہی ہے جو باقاعدہ اپنا جواز رکھتی ہے۔ نازؔ خیالوی کی شاعری بیشک کوئی ایسی معرکہ آرا نہیں ہے لیکن اسے آپ مسترد بھی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ آپ کو ایسا کرنے ہی نہیں دے گی کہ اچھا شعر روایت کی جکڑ بندیوں کے اندر رہ کر بھی لکھا جا سکتا ہے اور اس کے متعدد شعر اس بات کی تصدیق کرتے ہیں؛ اگرچہ اس پیرایۂ اظہار سے کچھ زیادہ توقع بھی نہیں کی جاتی۔
جتنے شعر میں نے اس مسودے میں سے نکالے ہیں‘ آج کل کے چھپنے والے اکثر مجموعوں میں سے اتنے بھی بصد مشکل دستیاب ہوتے ہیں۔ بہتر تو یہی تھا کہ کمزور اشعار شاعر خود ہی نکال دیتا کیونکہ عمدہ اشعار اگر کتاب کو ایک وقعت بخشنے کا باعث بنتے ہیں تو ہلکے اشعار شاعر کا کوئی بہتر امیج بننے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ معروف شاعر ناصر علی اورنازخیالی مرحوم کے کچھ دیگر دوست مل کر یہ کتاب چھپوانے کا اہتمام کر رہے ہیں‘ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ کام وہ کر دیتے لیکن ان کے لیے شاید یہ ممکن نہ ہو۔ بہرحال، میں نے آپ کے ذوقِ مطالعہ کی تسکین کیل یے جو شعر نکالے ہیں‘ وہ پیش ہیں:
ادھوری ہر کہانی ہے یہاں ذوقِ تماشہ کی
کبھی نظر یں نہیں رہتیں‘ کبھی منظر نہیں رہتے
مجھے نادم کیا کل رات دروازے نے یہ کہہ کر
شریف انسان گھر سے دیر تک باہر نہیں رہتے
جب سے دستارِ فضیلت پائی ہے دربار میں
جانے کیوں شانوں پہ اپنا سر نہیں لگتا مجھے
میرے ارمانوں کی قسمت میں رہی آوارگی
رات دن خانہ خرابی کا سفر جاری رہا
کر دیتا ہے اک بار جسے عشق معطل
تاعمر کبھی اس کی بحالی نہیں ہوتی
ہوتا ہے وہ اک اور ہی اظہارِ محبت
محبوب کی گالی کوئی گالی نہیں ہوتی
ہزاروں ٹھوکریں کھا کر نہ جس کو آنچ آئی
تری نگاہ سے گر کر وہ چُور چُور ہوا
وفا کا شوق ہوا ہے حسین لوگوں کو
دیارِ عشق میں پیدا نیا فتور ہوا
ہر گلی کوچے میں چرچے میرے کھونے کے ہوئے
میری گمشدگی نے کی ہر سمت مشہوری مری
عصرِ نو کے جھنگ میں حالات کا رانجھا ہوں میں
ہیر میری مفلسی ہے‘ بھوک سے چُوری مری
دل کی دھڑکن پر تری آمد کا ہوتا ہے گماں
ایک رنگ اس میں تری آوازِ پا جیسا بھی ہے
دھوپ نکلی ہے تو پھر برف بھی پگھلے گی ضرور
کیا خبر کون سی کب راہِ سفر کھل جائے
اک جواں للکار اُبھرے گی زمیں کی کوکھ سے
جب پرانے پیڑ کی بوڑھی جڑیں کاٹو گے تم
صورتِ حال الجھتی ہی چلی جاتی ہے
تیری زلفوں کی طرح‘ میرے خیالوں کی طرح
غیر کو نازؔ اس نے خط لکھا
پھر ستم یہ کہ معرفت میری
کیا بات ہے‘ ہر دور میں کیوں تیرے کرم سے
محروم ترے چاہنے والے ہی رہے ہیں
دے کے دستک میں گزر جائوں گا جھونکے کی طرح
وہ تغافل کیش کھڑکی کھولتی رہ جائے گی
مکمل امتحانِ دوستی اک بار ہی کر لو
کہ ہم سے نت نئے پرچے کی تیاری نہیں ہوتی
مل کے رستہ روکنا ہوگا ہمیں سیلاب کا
گائوں میں اک جھونپڑا تیرا بھی ہے‘ میرا بھی ہے
کیوں نہ ہم اک دوسرے کو تھام لیں اس حال میں
حوصلہ ٹوٹا ہوا تیرا بھی ہے‘ میرا بھی ہے
ہمارے خانۂ دل میں رہو سکون کے ساتھ
نکلنا چاہو تو آرام سے نکل جائو
آج کا مقطع
ظفرؔ، وہ یک بیک پانی کی رنگت ہی بدل جانی
سفینے اور ہو جانے‘ ستارہ اور ہو جانا