"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور ملک نیاز احمد

دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہر آپشن
استعمال کریں گے... ممنون حسین 
صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ''ہم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہر آپشن استعمال کریں گے‘‘ ماسوائے مذاکرات اور جنگ کے‘ کیونکہ مذاکرات کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے مزید پانچ سال کی ضرورت ہے جو کہ اگلی بار الیکشن جیت کر ضرور بنا لیں گے اور اگر کوئی بنا بنایا لائحہ عمل کسی کے پاس موجود ہے تو وہ خود مذاکرات کر لے‘ حکومت کو کوئی اعتراض نہ ہوگا جبکہ لڑائی کا آپشن اس لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا کہ اگر جنگجوئی سے کام لیں گے تو ہم میں اور دہشت گردوں میں کیا فرق باقی رہ جائے گا‘ خاص کر اس صورت میں کہ یہ حضرات حکومت کے بارے میں کافی نیک جذبات رکھتے ہیں‘ ویسے بھی ہم ایک امن پسند قوم ہیں اور لڑائی بھڑائی کو اچھا نہیں سمجھتے ا ور امید رکھتے ہیں کہ ہماری مجبوریوں کو دیکھ کر یہ حضرات بھی امن کا راستہ اختیار کر لیں گے اور ہم نے جو دفاعی پوزیشن ا ختیار کر رکھی ہے اس پر قائم رہیں گے کہ آخر مستقل مزاجی بھی کوئی چیز ہے۔ آپ اگلے روز ایوانِ صدر سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔ 
پی پی انتہا پسندوں کے خلاف
دیوار بن جائے گی... زرداری 
سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی انتہا پسندوں کے خلاف دیوار بن جائے گی‘‘ کیونکہ حکومتی میعاد ختم ہونے کے بعد ہم جملہ مفید کاموں سے فارغ ہو گئے ہیں‘ بلکہ دیوار بننے کا بھی ہمیں پورا پورا تجربہ حاصل ہے کہ ہم پانچ سال تک عوام کے سامنے بھی سیسہ پلائی دیوار ہی بنے رہے ہیں اور سابق وزیراعظم نے ملتان میں اپنے گھر کے چاروں طرف جو بم پروف دیوار بنوائی تھی‘ وہ بھی ایک روشن مثال کی طرح سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پارٹی رہنما نجکاری پالیسی پر کڑی نظر رکھیں‘‘ جس طرح انہوں نے ملکی وسائل پر کڑی نظر رکھی ہے اور اسے دشمنوں سے بچا کر خود اپنی تحویل میں لیے رکھا ہے تاکہ یہ خاطر خواہ طور پر محفوظ ہو سکیں اور پارٹی کے ضرورت مندوں کے کام آئیں اور عوام بھی یہ امید رکھیں کہ ان کی فلاح و بہبود کی باری بھی آنے والی ہے جبکہ نجکاری ویسے بھی گناہِ بے لذت کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اگر اس میں کچھ فائدہ ہوتا تو اس پالیسی پر ہم بھی عمل کرلیتے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پی پی پختونخوا کے رہنمائوں سے ملاقات کر رہے تھے۔ 
لیپ ٹاپ دینے سے جمہوریت 
مضبوط نہیں ہوتی... خورشید شاہ 
اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''لیپ ٹاپ دینے سے جمہوریت مضبوط نہیں ہوتی‘‘ بلکہ مفاہمتی پالیسی اپنانے سے ہی جمہوریت مستحکم ہوتی ہے جو ہم نے کر کے بھی دکھائی ہے کہ ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر کھانے سے یگانگت بھی بڑھتی ہے اور جمہوریت بھی مضبوط ہوتی ہے جبکہ ہر اجتماعی کوشش ویسے بھی بڑی بابرکت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پیپلز پارٹی کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے‘‘ اور کچھ عرصہ پہلے اس میں ایک اضافہ ہونے والا تھا جب پارٹی ورکرز سے خطاب کے دوران ایک رہنما ان کے ہاتھوں شہید ہوتے ہوتے بچے تھے اور ا گر ایسا ہو جاتا تو پارٹی کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو جاتا جس کی پارٹی کو شدید ضرورت بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت فیصلہ کرے‘ ہم اس کے ساتھ ہوں گے‘‘ اگرچہ ماضی میں ہمارے فیصلے ذرا مختلف قسم کے تھے جس کی وجہ سے دہشت گردی کے مسئلے پر توجہ نہیں دے سکے۔ آپ اگلے روز کراچی میں پیپلز یوتھ پروگرام کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ 
بلدیاتی انتخابات کرانے کے
مسئلے پر سنجیدہ ہیں... رانا ثناء اللہ 
وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''ہم بلدیاتی انتخاب کرانے کے مسئلے پر سنجیدہ ہیں‘‘ اور پوری سنجیدگی سے کوشش کر رہے ہیں کہ یہ بلا کسی طور سر سے ٹل ہی جائے تو اچھا ہے کیونکہ اس سے معزز ارکان اسمبلی میں بددلی پھیلے گی اور اگر سارے اختیارات ہی ان سے لے کر مقامی حکومت کے سپرد کر دیئے گئے تو ان حضرات کے پاس اسمبلی چیمبر کے باہر ہدوانے لگانے کے علاوہ اور کیا آپشن باقی رہ جائے گا جبکہ حکومت کے پاس آپشنز پہلے ہی دن بدن کم ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کا آپشن سمجھ میں آ رہا ہے نہ جنگ کرنے کا آپشن قابلِ عمل نظر آ رہا ہے۔ انہوں نے کہا ''آج کل بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے ہر کسی کو انتخابی بخار چڑھا ہوا ہے‘‘ جبکہ ڈینگی اور پولیو کے مسئلے پر حکومت پہلے ہی بہت پریشان ہے۔ اس لیے ان حضرات کو چاہیے کہ اس بخار کا تسلی بخش علاج کرائیں۔ جس کے لیے سرکاری ہسپتالوں کی خدمات حاضر ہیں جہاں سؤ اتفاق سے ہڑتالوں کے باعث ڈاکٹر میسر آتا ہے نہ دوا دستیاب ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
آہ‘ ملک نیاز احمد! 
سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور کے مالک‘ ملک نیاز احمد کا انتقال ملک کے ادبی حلقوں کے لیے ایک بہت بُری خبر کی حیثیت رکھتا ہے۔ مرحوم کافی عرصے سے علیل چلے آ رہے تھے۔ وطنِ عزیز میں روز بروز کم ہوتے کتاب کلچر کو قائم رکھنے کے سلسلے میں اس ادارے کی خدمات انتہائی قابلِ فخر بھی ہیں اور قابلِ تقلید بھی۔ یہ ایک ادارہ ہی نہیں بلکہ باقاعدہ تحریک کی حیثیت اختیار کر چکا تھا جس میں مرحوم نے اپنی کاوشوں سے نیا خون داخل کیا اور اسے محض ایک کاروباری ادارہ نہیں رہنے دیا۔ اردو زبان و ادب کی ترویج میں مرحوم کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جبکہ برصغیر کے ہر بڑے ادیب کی تصنیفات یہاں سے چھپ کر لوگوں تک پہنچیں جو دوسرے اشاعتی اداروں کے لیے ایک مثال بھی ہے اور ترغیب بھی۔ ان کی وفات سے ادیب برادری ایک اہم ہمعصر سے محروم ہو گئی ہے جس نے اپنی بے مثال محنت سے اس ادارے کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ؎ 
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے 
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے 
آج کا مقطع 
ظفرؔ، مذاق ہے یہ روز کا کہ مجبوری 
وہ آ کے جمع کرے اور تُو بکھر کے رہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں