"ZIC" (space) message & send to 7575

مفت کے اشتہارات اور ٹوٹے

اطلاعِ عام
ہرگاہ ،بذریعہ اشتہار ہذا ،عوام کو مطلع اور خبردار کیا جاتا ہے ،چونکہ تقریباً ساری کی ساری پولیس ،اہل ِاقتدار‘ اُن کے عزیز و اقارب اور دوستوں یاروں کی حفاظت پر مامور ہو چکی ہے‘ اس لیے اپنی حفاظت کا خود انتظام کیا جائے کیونکہ اپنی ذات پر بھروسہ کرنا ہی زندہ قوموں کی نشانی ہے اور دہشت گردوں کی مساعیٔ جمیلہ کے بعد بھی جتنی قوم باقی رہ گئی ہے ،یہ اس کے زندہ ہونے کا ثبوت ہے اور حکومت اسے سلام پیش کرتی ہے اور ان خواتین و حضرات کو باور کرانا چاہتی ہے کہ اہلِ اقتدار و دیگران کی حفاظت اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر وہ نہ ہوں گے تو ان پر حکومت کون کرے گا اور یہ بے یارو مددگار ہو کر رہ جائیں گے۔ البتہ پولیس کی حفاظت کے ساتھ ساتھ حکومت کو قوم کی دعائوں کی بھی ضرورت ہے حتیٰ کہ خود پولیس بھی ان کی دعائوں کی محتاج ہے کیونکہ ایسا نہ ہو کہ ہماری پولیس کا حال بھی کراچی کی پولیس والا ہو جائے۔
المشتہر: حکومت پنجاب عفی عنہ
تلقینِ عام
ہر گاہ بذریعہ اشتہار ہذا خواص و عوام کو تلقین کی جاتی ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کے معاملے پر حکومتی اقدامات پر بھروسہ رکھیں کیونکہ یہ معاملہ پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ کے سپرد کر دیا گیا ہے جیسا کہ سارا ملک ہی ماشاء اللہ عرصہ دراز سے اللہ ہی کے سپرد چلا آ رہا ہے کہ بقول ِ شاعر 
کمالِ ڈرائیور نہ انجن کی خُوبی
چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے
اور جو نکتہ چین حضرات حکومت اور خُدا پر بھروسہ نہیں کرتے‘ اس کا مطلب یہی ہے کہ ان کا ایمان کمزور ہے جسے مضبوط بنانے کی انہیں ازحد ضرورت ہے۔ نیز حکومت نے ایک الگ محکمہ قائم کر دیا ہے جو نئی وزارتِ دُعا کے ماتحت ہو گا جو اجتماعی دُعائیں منگوانے کا اہتمام کرے گا ک خدا دہشت گردوں کے دل میں رحم ڈالے اور وہ مذاکرات پر تیار ہو جائیں۔
المشتہر:حکومت عفی عنہ
خوشخبری
ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہذا جملہ عوام و خواص کو خوشخبری ہو کہ وزیر اعظم نے بالآخر کبھی کبھار پارلیمنٹ میں تشریف لانے کا ارادہ کر لیا ہے جسے اللہ میاں ضرور استقامت بخشیں گے کیونکہ ویسے بھی صاحبِ موصوف نے غیر ملکی دوروں میں کمی لانے کا پروگرام بنا لیا ہے‘ اگرچہ وزیر اعلیٰ پنجاب اس پر سخت رنجور ہیں کیونکہ وہ بھی بیرونی دوروں میں وزیر اعظم کے ہمرکاب ہُوا کرتے ہیں چنانچہ انہیں ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ ایسے دورے خود کر لیا کریں۔ واضح رہے کہ پارلیمنٹ میں وزیر اعظم کی تشریف آوری کے مبارک موقع پر انہیں 21توپوں کی سلامی دی جائے گی کیونکہ جب سے جنرل پرویز مشرف کو ان کی رخصتی کے موقع پر ایسی سلامی دینے کی خبر انہیں ملی ہے، ان کی طبیعت اسی دن سے خراب رہتی ہے جس کا موصوف کے ہاضمے پر نہایت بُرا اثر پڑا ہے وغیرہ وغیرہ۔
المشتہر:سیکرٹری پارلیمنٹ ہائوس
اطمینان بخش
جب سے حکومت کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ اس کی طرف سے مولانا سمیع الحق کو طالبان سے مذاکرات کا کوئی ٹاسک نہیں دیا گیا‘ مولانا فضل الرحمن کی خوشی اور اطمینان کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں رہا اور اس کی صحت ماشاء اللہ پہلے سے بھی بہتر ہو گئی ہے اور ڈائٹنگ کی ضرورت محسوس فرمانے لگے ہیں‘ اگرچہ مولانا سمیع الحق کی طرف سے اس کی کوئی تصدیق منظرِ عام پر نہیں آئی ہے لیکن اُن کی بُجھی بُجھی طبیعت سے ہی صاف اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے بلکہ ساری دال ہی کالی ہو چکی ہے‘ اس لیے موصوف کو چاہیے کہ کسی طرف کو منہ کر جائیں اور عمر کا باقی حصہ کسی غار وغیرہ کے اندر یادِ خُدا میں بسر کر دیں کیونکہ اس کے بعد ان کے سیاست کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا بلکہ اپنی جماعت کا بچا کھچا حصہ بھی (س) سے تبدیل کر کے (ف) میں ضم کر کے ثواب دارین حاصل کریں۔ کیونکہ یہ جو ہاتھ ان کے ساتھ ہو گیا ہے‘ ان کے لیے باعثِ عبرت ہونا چاہیے۔
(جان اچکزئی ترجمان مولانا فضل الرحمن)
بجھارت
جیسا کہ آج کل اس امر پر عوام و خواص میں شرطیں لگائی جا رہی ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کو لے کر اُڑ جانے کے لیے کوئی جہاز آ ئے گا یا ہیلی کاپٹر‘ تو اس سلسلے میں مُلک عزیز کے اندر ایک گہما گہمی کا سماں پیدا ہو چکا ہے اور تقریباً ساری قوم ہی اس مد میں سرمایہ کاری میں مصروف ہے جس سے جیتنے والوں کے تو وارے نیارے ہو جائیں گے البتہ ہارنے والے غالباً وزیر اعظم کی قرضہ سکیم سے رجوع کریں گے۔ تاہم‘اس موضوع پر الگ سے شرطیں لگائی جا رہی ہیں کہ حضرت صاحب کو علاج کے بہانے باہر بھیجا جائے گا یا حکومت ان سے معافی مانگ کر مقدمہ واپس لے لے گی جبکہ دوسرا امکان زیادہ وزنی بھی ہے اور ہاٹ فیورٹ بھی ۔ تاہم‘ ابھی اس امر پر شرطوں کا سلسلہ شروع نہیں ہوا ہے کہ حکومت اس کے بعد شکرانے کے نوافل ادا کرے گی یا وزیر اعظم صاحب اظہارِ تشکر کے طور پر عمرے کے لیے تشریف لے جائیں گے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ حکومت اس ضمن میں پہلے ہی اعلان کر دے اور شرطیں لگانے کی نوبت ہی نہ آئے۔بہرحال‘ پوری قوم کے اندر اس سلسلے میں خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے اور حکومت اپنے طور پر سربسجود اور دُعائوں میں مصروف ہے۔
آج کا مطلع
وہ جاں بھی مانگے تو دے دو‘ اِسی پہ بس کیا ہے
جو پھنس گئے ہو تو اب اور پیش و پس کیا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں