دہشت گرد حملے امن کوششوں کو
سبوتاژ نہیں کر سکتے...نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''دہشت گرد حملے امن کوششوں کو سبوتاژ نہیں کر سکتے‘‘کیونکہ مذاکرات سمیت جب امن کوششوں کو ابھی تک شروع ہی نہیں کیا جا سکا تو انہیں سبوتاژ کرنے کا سوال کیسے پیدا ہو سکتا ہے چنانچہ ہمارے ایسے بیانات کو ہی کافی سمجھا جائے کیونکہ ان حملوں کے نتیجے میں جو جانیں ضائع ہوتی ہیں ان کی قسمت میں یہی لکھا ہے اور ہم اگر کئی دیگر معاملات میں کوئی دخل نہیں دے رہے اور محض راضی برضا ہو کر بیٹھے ہوئے ہیں تو کسی کی قسمت کے معاملے میں دخل اندازی کیسے کر سکتے ہیں۔ اس لیے خواہ مخواہ پریشان کرنے کی بجائے ہمیں امن سے حکومت کرنے دی جائے کیونکہ یہ امن بہرحال بہت ضروری ہے کہ یہ حکومت جو اتنے پاپڑ بیلنے کے بعد حاصل کی گئی ہے تو اس لیے نہیں کہ اس میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالی جائیں‘ہیں جی؟انہوں نے کہا کہ ''قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہے‘‘ماسوائے چند وزرائے کرام کے‘ جو اپنے الگ خیالات رکھتے ہیں کہ جمہوریت کا ایک حسن یہ بھی ہے۔ آپ اگلے روز لاہو میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
قوم کے متحد ہونے تک آپریشن یا مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں...چودھری نثار
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار احمد خاں نے کہا ہے کہ ''قوم کے متحد ہونے تک آپریشن یا مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں‘‘اور‘ یہ جو وزیر اعظم صاحب نے کہا ہے کہ قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہے تو اس لیے کہ وہ کبھی پارلیمنٹ میں آئیں یا ملک کے اندر دورے کریں تو انہیں معلوم ہو کہ قوم متحد ہے یا نہیں‘اور‘ صورتحال کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر میں اور وزیر اعظم ہی متحد نہیں اور متضاد خیالات رکھتے ہیں تو پوری قوم کے متحد ہونے کا سوال کہاں پیدا ہو سکتا ہے‘اسی لیے اس کے متحد ہونے کا انتظار کیا جا رہا ہے جو اُمید ہے کہ اگر دہشت گردوں سے بچ نکلی تو یہ بچی کُھچی قوم چند سال میں ضرور متحد ہو جائے گی جس کے بعد یہ فیصلہ کرنا بھی آسان ہو جائے گا کہ مذاکرات کرنے ہیں یا آپریشن۔ انہوں نے کہا کہ ''کوشش کر کے مذاکرات کو ایک سمت میں لے گئے ہیں‘‘ البتہ اس سے آگے راستہ بند ہے اور مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑ گیا ہے۔ اس لیے اب کسی اور سمت سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے تاکہ مذاکرات شروع ہو سکیں‘ اور امید ہے کہ اس وقت تک قوم بھی متحد ہو جائے گی۔ آپ اگلے روز صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کر رہے تھے۔
ملک کو بحرانوں سے ضرور باہر
نکالیں گے...شہباز شریف
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا کہ ''ملک کو بحرانوں سے ضرور نکالیں گے‘‘جس کے لیے ایک کمیٹی مقرر کر دی ہے جو ان بحرانوں کی فہرست تیار کرے گی تاکہ ان سے ملک کو نکالا جا سکے‘اگرچہ ملک کی سطح کے سارے معاملات وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن وزیر اعظم صاحب کی طبیعت ذرا ناساز رہتی ہے اس لیے یہ ساری سردردی مجھے ہی کرنا پڑتی ہے جبکہ صوبے کا سارا کام عزیزی حمزہ شریف سرانجام دے رہے ہیں جو ان کے لیے ریہرسل کا کردار بھی ادا کرے گا کیونکہ کچھ عرصے بعد وزارت اعلیٰ کا بوجھ بھی انہی نے اپنے ناتواں کندھوں پر اُٹھانا ہے جبکہ وزیراعظم کی خدمات خاکسار نے سر انجام دینی ہیں‘ اور ہم سب نے مل کر صدر نواز شریف کی توقعات پر پورا اُترنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''مخلصانہ کاوشیں رنگ لائیں گی‘‘جس میں پورا خاندان شامل ہے اور پوری سکیورٹی میسر ہونے کے بعد ہی یہ کارنامہ سرانجام دینے کے قابل ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ن لیگ جب بھی اقتدار میں آئی عوام کی خدمت کے ریکارڈ قائم کیے‘‘ جس میں ہم جیسے خدمت گاروں کی خدمت بھی شامل ہے اور سب کو صاف نظر بھی آ رہی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
تلافی ٔ مافات
ایک اطلاع کے مطابق اگلے روز وزیر اعظم خود گاڑی چلا کر عطاء الحق قاسمی کے دفتر پہنچ گئے ‘ وہ ہر اشارے پر رُکے اور لوگ حیران ہوتے رہے۔ چنانچہ کچھ عرصہ پہلے صاحبِ موصوف کا قافلہ گزارنے کے لیے ٹریفک بند کرنے کی وجہ سے ایک خاتون کو رکشے میں ہی بچے کو جنم دینا پڑا تھا‘ وزیر اعظم کے اس عمل سے اس افسوسناک واقعے کی مکمل تلافی ہو گئی ہے اور انہوں نے ہدایت کر دی ہے کہ اگر آئندہ بھی اس قسم کا کوئی افسوسناک واقعہ پیش آیا تو وہ اسی طرح خود گاڑی چلاتے ہوئے کہیں نہ کہیں پہنچ جایا کریں گے اور راستے میں ہر اشارے پر رُکیں گے بھی‘ اور اسی طرح لوگوں کو حیران ہونے کا موقع بھی دیں گے کیونکہ لوگوں کا اپنے مسائل کو نظر انداز کر کے مسلسل حیران رہنا بے حد ضروری ہے جبکہ اس طرح وہ پریشان ہونے سے بھی بچیں گے(لوگ ‘وزیر اعظم نہیں) اور اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ جناب عطاء الحق قاسمی گاہے بگاہے وزیر اعظم کو اپنے دفتر میں آنے کی دعوت دیتے رہیں گے تاکہ تلافی ٔ مافات کا یہ سلسلہ جاری رہے۔
حکومت پاکستان عفی عنہ
اطلاعِ عام
ہر گاہ بذریعہ اشتہار ہذا ہر خاص و عام کو مطلع کیا جاتا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کا ایک سریع الاثر نسخہ بے حد کامیاب جا رہا ہے جس کے تحت انسدادِ دہشت گردی کا فنڈ تحائف‘ گلدستوں اور فونوں وغیرہ پر خرچ کیا جا رہا ہے جس کے نہایت مثبت نتائج برآمد ہونا شروع ہو گئے ہیں جبکہ اسی مد میں گاڑیوں کا ایندھن ‘سونے کے سیٹ‘ قیمتی قالین اور مٹھائیاں وغیرہ خریدے جانے کے علاوہ متعلقہ حضرات کی بیگمات کو جیب خرچ کی ادائیگی بھی شامل ہے۔ اسی سے اندازہ ہو گیا ہو گا کہ حکومت اس مسئلے کو نمٹانے کے لیے کس قدر سنجیدگی سے کام لے رہی ہے کیونکہ یہ سارا کام نہایت سنجیدگی اور دیدہ دلیری سے سرانجام دیا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ سلسلہ وزارت داخلہ کے محکمہ کے بعض سابق عہدیداروں کی کار گزاری ہے ‘ تاہم ایسا لگتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس روایت کو اب بھی قائم رکھا جا رہا ہے کیونکہ موجودہ وزارت داخلہ پہلے سے بھی زیادہ بادشاہ لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو وزیر اعظم کے اختیارات بھی استعمال کرتی رہتی ہے۔
المشتہر:وزارت اطلاعات و نشریات حکومت پاکستان
آج کا مطلع
کچھ سروکار کسی کو نہیں‘ اے دل میرے
کہ کُھلے پھرتے ہیں کیوں شہر میں قاتل میرے