اپنی ثقافت کے ذریعے پاکستان کا
امیج بہتر کریں گے: بلاول بھٹو
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ '' اپنی ثقافت کے ذریعے پاکستان کا امیج بہتر کریں گے‘‘ کیونکہ جو کچھ گزشتہ پانچ برسوں میں کیا ہے، وہی ہماری ثقافت ہے اور جس سے پاکستان کا امیج دنیا بھر میں کافی بہتر ہوا ہے اور یہ اتنی زیادہ تھی کہ دونوں سابق وزرائے اعظم کو اس کا حساب دینا پڑ رہا ہے، تاہم اگر مزید بہتری کی گنجائش ہوئی تو اگلی بار پوری کر لی جائے گی‘ اگرچہ موجودہ حکومت بھی اپنی ثقافت کے ذریعے اپنی مدت پوری کرنے تک یہ امیج کافی حد تک بہتر کر چکی ہو گی کیونکہ ملک عزیز میں جو بھی حکومت آئی ہے، اسی ون پوائنٹ ثقافت کا جھنڈا اٹھائے رکھتی ہے اور اس سے کبھی ادھر ادھر نہیں ہوئی اورنہ ہی انہیں اس ثقافت سے ادھر ادھر ہونے کی ضرورت ہی محسوس ہوئی، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ اس نیک کام سے انہیں فرصت ہی نہیں ملی جو دوسرے کام کی طرف متوجہ ہوتے۔ آپ اگلے روز موئن جودڑو میں ہونے والی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
مذاکرات مختصر نہیں ہوں گے، قوم
کو صبر سے کام لینا ہو گا:چوہدری نثار
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد خاں نے کہا ہے کہ ''مذاکرات مختصر نہیں ہوں گے، قوم کو صبر سے کام لینا ہو گا‘‘ کیونکہ قوم اگر بجلی، گیس اور مہنگائی وغیرہ کے معاملے میں صبر سے کام لے رہی ہے تو اس اس مسئلے پر بھی اسے کا مظاہرہ کرنا چاہیے جبکہ ویسے بھی اسے صبرو شکر کی عادت پڑی ہوئی ہے جبکہ حکومت قوم سے بھی بڑھ چڑھ کر صبر کا مظاہرہ کرے گی کیونکہ فی الحال تو صبر ہی کریں گے اور اگر طالبان سے بچ گئے تو شکر بھی کریں گے اور امید ہے کہ وہ ہمیں شکر کرنے کی مہلت ضرور دیں گے جبکہ ہم نے گزشتہ سات ماہ میں انہیں منظم ہونے کا موقع دیا ہے تو وہ ہمارے ساتھ یہ رعایت کیوں نہیں کریں گے اور یہ مذاکرات کی صورت میں بھی انہیں مزید موقع ہی دیا جا رہا ہے جس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ '' مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے کچھ قومیں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں‘‘ جبکہ ہم سب بھی، طالبان سمیت، اپنا اپنا کردار ہی ادا کر رہے ہیں کیونکہ بے عملی کوئی اچھی چیز نہیں ہوتی۔ آپ اگلے روز ٹیکسلا میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
مذاکرات سے پہلے زبان بندی
کر لینی چاہیے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''مذاکرات سے پہلے زبان بندی کر لینی چاہیے‘‘ کیونکہ اب تک جو زبان چلائی جا چکی ہے اوراس سے جتنا بھی نقصان ہو چکا ہے، انشاء اللہ وہی کافی ہے جبکہ میں تو ویسے بھی بے زبان آدمی ہوں اور کبھی کبھار اپنے مفاد کے لیے ہی زبان کھولتا ہوں جس کا اب تک کافی اچھا اثر پڑ رہا ہے اور اس طرح سے میری ترجیحات کا خاطر خواہ خیال رکھا جا رہا ہے۔ البتہ اگر کوئی ترجیح باقی بھی رہ گئی ہے تو اس زبان کو مزید زحمت دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' اگر ڈرون حملہ ہوا تو پاکستان ریڈ زون میں داخل ہو جائے گا‘‘ جو بہرحال بہتر ہو گا کیونکہ کافی عرصے سے ملک عزیز ایک ہی جگہ پر کھڑا ہوا ہے اور کہیں داخل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا،لہٰذا اس تناظر میں اسی کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ '' الطاف حسین کی زندگی عزیز ہے‘‘ کیونکہ طالبان کے خلاف بیان دے دے کر وہ اسے کافی خطرے میں ڈال چکے ہیں۔ آپ اگلے روز فیصل آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
مذاکرات کے لیے ماحول
سازگار بنایا جا رہا ہے: حمزہ شہباز
نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی حمزہ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''طالبان سے مذاکرات کے لیے ماحول سازگار بنایا جا رہا ہے۔‘‘ البتہ ہمارے لیے ماحول خاصا مخدوش ہو چکا ہے کیونکہ مذاکرات نے تو کیا کامیاب ہونا ہے جبکہ بعد کی صورتِ حال خاصی تشویشناک ہو جائے گی‘ البتہ اگر امیر المومنین مولوی فضل اللہ صاحب مدظلہ نے چارج سنبھال لیا تو والد صاحب سمیت تایا جان کو شاید کوئی خلافت وغیرہ بھی دینے پر تیار نہ ہوں‘ اگرچہ طالبان کو ہماری خفیہ خدمات اور تعاون فراموش نہیں کرنا چاہیے اور اتنے متوقع خلیفوں میں اگر ہمارے لیے بھی گنجائش نکال لی جائے تو نہایت کرم فرمائی ہو گی جبکہ خاکسار تو کسی چھوٹی موٹی خدمت گاری کے لیے بھی تیار ہو گا‘ آزمائش شرط ہے۔ آپ اگلے روز ماڈل ٹائون میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
بیرونی عناصر کے خلاف آپریشن
ہونا چاہیے:ضیاالدین بٹ
جنرل (ر) ضیاالدین بٹ نے کہا ہے کہ '' ملک میں سرگرم بیرونی عناصر کے خلاف آپریشن ہونا چاہیے‘‘ اور دہشت گردوں کا یہ فتنہ کبھی کھڑا نہ ہوتا اگر میرے آرمی چیف نامزد ہونے کے بعد چھوٹے میاں صاحب بازار سے میری وردی پر ٹانکنے کے لیے پھول اور ستارے بر وقت لے آتے اور فوج کو گڑ بڑ کرنے کا موقع ہی نہ ملتا، لیکن وہ راستے میں فروٹ چاٹ کھانے کے لیے ایک ریڑھی پر رک گئے اور اتنی تاخیر ہونے کی وجہ سے دشمنوں نے سارا کام ہی خراب کر دیا، اگرچہ میں نے بھی بعد میں کسی مناسب موقع پر ہی کام کرنا تھا جو جنرل پرویز مشرف نے بڑے میاں صاحب کا اتنا معتمد ہوتے ہوئے کر دکھایا کیونکہ اس وقت تک وہ خاصی حد تک اپنی باری لے چکے ہوتے اور فوج کی باری آ چکی ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ '' انہیں بھاگنے نہ دیا جائے‘‘ کیونکہ ایک طرف جنرل مشرف کے بھاگ جانے کی بھی فکر لگی ہوئی ہے کہ کوئی جہاز یا ہیلی کاپٹر انہیں لینے کے لیے اب آیا کہ اب آیا۔ انہوں نے کہا کہ '' مشرف کے ساتھ میں بھی بغاوت کرتا تو فوج میں لڑائی شروع ہو جاتی‘‘ اگرچہ میں تو بغاوت کرنے کے قابل ہی نہ رہا تھا۔ آپ اگلے روز لاہور میں دنیا فورم میں گفتگو کر رہے تھے۔
.........
کل جو اشعار چھپنے سے رہ گئے تھے‘ نذر قارئین ہیں:
اور پھر میں بھی خاک ہونے لگا
خاک ہوتی ہوئی زمین کے ساتھ
یہ روز و شب تو چلو ہم شمار کر لیں گے
مگر ہے اس کے علاوہ حساب دوسرا بھی
مجھ کو تخریب بھی نہیں آئی
توڑتا کیا ہوں‘ ٹوٹتا کیا ہے
وقت بہا کر لے جاتا ہے نام و نشان‘ مگر
کوئی ہم میں رہ جاتا ہے اور کسی میں ہم
یوں بھی خاصیتِ اشیاء کا پتہ چلتا ہے
ریت پر چلتا ہوں‘ دریا کا پتہ چلتا ہے
(مقصود وفا)
یہاں بھی آ کے غمِ یار نے ٹھکانہ کیا
مرے لیے تو یہی اک پناہ گاہ تھا دل
(نسیمِ سحر)
اس جگہ تو نہیں گرا تھا میں
تو جہاں سے اٹھا رہی ہے مجھے
(شہباز یوسف)
میری آنکھوں سے عیاں تھی شبِ ہجراں کی تھکن
میں کسی دشت سے ہوتے ہوئے گھر آیا تھا
مجھے وہ توبہ کی توفیق بھی نہیں دیتا
میں اُس کی نظروں میں شاید بُرا زیادہ ہوں
کسی بھی کام کا چھوڑا نہ عشق نے مجھ کو
میں اس لیے بھی ترے کام کا زیادہ ہوں
(سید اذلان شاہ)
آج کا مقطع
کرتے ہیں، ظفر، جا کر اب خود ہی سوال اُن سے
گھر میں تو گداگر کے خیرات نہیں آتی