ہمارے دوست اور نظم کے نامور شاعر اقتدار جاوید کی دو نظمیں کافی عرصے سے پڑی مجھے شرمندہ کر رہی تھیں‘ جن میں سے فی الحال ایک پیشِ خدمت ہے۔ یاد رہے کہ آج 3 بجے سہ پہر اکادمی ادبیات کے دفتر‘ 203آصف بلاک علامہ اقبال ٹائون میں ان کی نظموں کے تازہ مجموعے ''ایک اور دنیا‘‘ کی رسم پذیرائی منعقد کی جا رہی ہے جس میں شرکت کے لیے امریکہ سے سینئر ادیب اور شاعر ستیہ پال آنند لاہور پہنچ چکے ہیں اور مجھے بھی حاضری کا حکم دیا گیا ہے۔
چاپ
آ دکھائوں تجھے
شہر
اور شہر کے آنے والے دنوں سے جُڑے لوگ
صدیوں کی یخ سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے
بوڑھے نقّاش سے مل
گھنی خوشبوئوں سے بھرے پھول کی طرح
پودے کی شاخوں پہ کھل
اُس کی آنکھوں میں
گہری چمک پیدا کر
شہد سے میٹھے
اپنے خدوخال کا شیدا کر
پوری دنیا کو شیدائی کر
بوڑھا نقّاش سودائی کر
بوڑھا نقّاش
اُس شکل کے بارے میں سوچتا ہے
جو اُس نے بنانی ہے
اُس کو بناتے ہوئے
شکل خود اُس کی
تبدیل ہو جانی ہے
اُس کے حلقوم میں
اُس کی آواز رُک جانی ہے
کوئی جملہ نہیں بننا ہے
پینجنی باندھے
مستی میں ڈوبے کبوتر کی
مستی لُٹاتی غٹرغوں میں
تشکیل ہو جانی ہے
آ دکھائوں تجھے
سرخ اینٹوں کے انبار میں
دستِ معمار میں آ
لرزتے ہوئے اس کے سینے میں
اک تیر کی طرح
پیوست ہو
اُس کی کمزور ہوتی ہوئی پسلیاں
توڑ دے
اُس کو اُس کی تمنّا بھری اصل سے
جوڑ دے
بے قراری کا معمورہ ہے یہ زمیں
ایک یخ بستہ خاموشی میں
چپ کھڑا ہے جہاں آسماں
جس سے یخ آسماں اک بنایا گیا
کیسا اوزار ہے
آ دکھائوں تجھے
یہ جہاں
سانس لینا جہاں کارِ دشوار ہے
اِک جھڑی باندھ
بادل کے اندر
جو چاکوں میں موتی ہیں
چھینٹوں کی صورت بہا
شہر کی گلیوں میں
خشک پتّوں کی صورت
وہ موتی رلا
آ دکھائوں تجھے
کس قدر شہر آزردہ ہے
گلیاں خاموش ہیں
چاپ افسردہ ہے!!
آج کا مطلع
مرے سامنے صلۂ سفر نہیں آ رہا
کہ رواں ہوں دیر سے‘ اور‘ گھر نہیں آ رہا