احفاظ الرحمن کراچی میں نظم کا ڈنکا بجا رہے ہیں جس کی آواز یہاں تک پہنچ رہی ہے۔ ایک مجموعۂ کلام شائع ہو کر اہلِ فن سے داد وصول کر چکا ہے۔ ہماری درخواست پر انہوں نے اپنی تازہ اور غیر مطبوعہ نظمیں بھجوائی ہیں‘ جن میں سے دو حاضر خدمت ہیں‘ باقی کسی اگلی نشست میں پیش کی جائیں گی۔ یار زندہ‘ صحبت باقی۔
محبت کم نہ ہونے دو!
(پولیو کے قطرے پلانے والی لڑکیوں کے نام)
محبت کی ہتھیلی رنگ سے خالی نہ ہونے دو
محبت کم نہ ہونے دو‘ زمیں کو سانس لینے دو
زمیں پر جینے والوں کو مہکتے خواب لکھنے دو
مہکتے خواب کی تعبیر کا عنوان لکھنے دو
محبت کم نہ ہونے دو
.........
محبت تتلیوں کی گفتگو میں رقص کرتی ہے
پرندوں کے حسیں نغموں کی دھن میں
رقص کرتی ہے
ہوا کے ساتھ لہراتی ہوئی پرواز کرتی ہے
فضا میں میٹھی خوشبو کی مہک کو کم نہ ہونے دو
محبت کم نہ ہونے دو
............
محبت کم نہ ہونے دو
جو نفرت بیچتے ہیں
خون کا بیوپار کرتے ہیں
خوشی کی کوکھ پر خنجر سے کیسے وار کرتے ہیں
لرزتی آرزوئوں کو ڈرا کر شاد ہوتے ہیں
وہ نازک تتلیوں کے خواب سے
زیر و زبر ہوں گے
پرندوں کی حسیں چہکار سے
زیر و زبر ہوں گے
پرندوں کے حسیں نغموں کو‘
نازک تتلیوں کو رقص کرنے دو
محبت کم نہ ہونے دو!
محبت کم نہ ہونے دو!
خوف کی روٹی کھانے والے
شہرِ خرابی کی گلیوں میں
خاک بداماں‘ افسردہ حیراں راہوں میں
عرضِ تمنا کے اسباب کی صورت
کب سے مُہر بہ لب ہے
مٹی نمو کے ہر موسم سے بچھڑ چکی ہے
یاس کی آندھی پیڑوں کی گُل رنگ امیدیں
چاٹ چکی ہے
............
جنگل والے ہتھیاروں کے بل پر
اپنا حکم روا نہ کرتے ہیں
............
ہمارے رنگ میں رنگِ قبا کی بات کرو
ہمارے رنگ میں رنگِ سخن کی بات کرو
ملبوس ہمارے رنگ کا زیبِ تن کر کے
حدودِ جلوت اور خلوت میں بُودو باش کرو
ہماری رسم میں آئینۂ جہاں دیکھو
سلامتی کا یہی ایک راستہ آج
سلامت ہے
(وگرنہ خون کا اک دریا
تمہاری راہ میں ہے)
............
شہرِ خرابی کی گلیوں میں
سر پہ خاک اُڑانے والے
افسردہ حیراں راہوں میں
خوف کی دھوپ میں جلنے والے
خوف کی روٹی کھانے والے
خوف کا پانی پینے والے
کب جاگیں گے
کب غفلت کے تہہ خانے میں سونے والے
دروازوں پر دستک کا پیغام سنیں گے
اندھیاروں کے اندھے بن میں
سورج کا پیغام پڑھیں گے
اُجیاروں کے بدخواہوں سے
کب تک پریم کی آس رکھیں گے
خوف کی روٹی کھانے والے
خوف کا پانی پینے والے
کب تک کیکر کی جھاڑی سے
گُل بازوں کی آس رکھیں گے
آج کا مقطع
پار جو ہوتا نہیں دریا ہے وہ میرا‘ ظفرؔ
در نہیں جس میں وہ میرے نام کی دیوار ہے