امیرمینائی نے کہا تھا ؎
خشک سیروں تن شاعر میں لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے ایک مصرعِ تر کی صورت
اس شعر کی ایک خوبصورتی تو یہ ہے کہ ایک مصرع میں لفظ خشک آیا ہے اور دوسرے میں تر۔ ان وقتوں میں اور اب بھی مناسبات لفظی ہی کو شاعری کا زیور بلکہ اگر یہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ اصل شاعری سمجھا جاتا تھا اور ہے۔ تاہم جو بات اس میں کہی گئی ہے ،اس سے بھی اختلاف کا ایک پہلو موجود ہے اور وہ یہ کہ مصرع تر کہنے کے لیے تو لہو خشک کرنا کچھ ایسا ضروری نہیں ہوتا اور بعض اوقات یہ گوہر اپنے آپ ہی دستیاب ہوجاتا ہے۔
اللہ میاں جس شخص پر مہربان ہوتے ہیں، اسے شاعر بنادیتے ہیں، اگرچہ اس بات سے بھی اختلاف کی گنجائش موجود ہے اور جس پر بہت مہربان ہوتے ہیں،اس سے کوئی ایک آدھ ایسا شعر بھی کہلوا دیتے ہیں جو اس کی پہچان بن جاتا ہے اور وہ باقی عمر اس کی کمائی کھاسکتا ہے اور ہماری ادبی تاریخ میں ایسے شعراء کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جن کا اثاثہ بالعموم ایک شعر ہی ہوتا ہے اور کئی ہمارے جیسے دیوان کے دیوان لکھ مارتے ہیں اور ایسے کسی شعر کے لیے قسمت یاوری ہی نہیں کرتی اور ایسا کوئی شعر حادثتاً یعنی اچانک بھی تخلیق ہوسکتا ہے جس کے لیے ایک قطرہ خون کا بھی خشک نہ کیاگیا ہو۔
حق تو یہ ہے کہ شعر کا بننا بھی کیمیا گری سے کوئی مختلف چیز نہیں ہے یعنی ایک آنچ کی بھی کسر رہ جائے تو سونے کی بجائے راکھ ہی دستیاب ہوتی ہے کیونکہ محض لفظ اور قافیے جوڑ دینے سے شعر نہیں بنتا بلکہ شعر تو مضمون تازہ کا بھی محتاج نہیں ہوتا۔ تجربے ، مہارت اور پیرایۂ اظہار سے اچھا شعر تو نکالا جاسکتا ہے لیکن ایک پھڑکا دینے والا شعر کسی ان گھڑ ہاتھ سے بھی تخلیق ہوسکتا ہے ،اگرچہ بعض افراد کے نزدیک شعر کی یہ تعریف بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی کہ وہ لازمی طور پر پھڑکا دینے والا ہی ہو کیونکہ پسند و ناپسند کا سارا دارومدار بھی آپ کے ذوق شعر پر ہی ہوتا ہے۔
تاہم اعلیٰ شعر کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ وہ خاص و عام کے نزدیک صائب ہو اور کسی کے نزدیک اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہ ہو اور یہ بھی ہے کہ ہر طرح کا شعر ہر کسی کے لیے ہوتا بھی نہیں۔ یعنی یہاں بھی اپنی اپنی طبائع ہی کام کرتی ہیں جبکہ شعر کے جو محاسن اساتذہ کرام نے مقرر کررکھے ہیں ،شعراکثر حالات میں ان سے بہت آگے نکل چکا ہے حتیٰ کہ ضرورت سے زیادہ مبالغہ و غلو اور مناسبات لفظی کی بھرمار پر اب ہنسی آتی ہے۔ شعر زندگی اور معمولات زندگی کے زیادہ قریب آگیا ہے اور اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شعر غزل کا شعر لگتا ہی نہیں ہے۔
اصل تشویش انگیز بات یہ ہے کہ شعر کی پہچان ہی کہیں گم ہوکر رہ گئی ہے ۔صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس میں جو بات کہی گئی ہے وہ کس قدر اہم اور قابلِ قدر ہے، دونوں مصرعوں کی چولیں کس قدر کسی ہوئی ہیں،زبان ،صرف ونحو اور محاورے کے لحاظ سے تو اس میں کوئی سقم نہیں ہے ،حالانکہ دیکھنا چاہیے کہ جو بات اس میں کہی گئی ہے ،وہ کہی کس طرح سے گئی ہے ،اس میں کوئی تازگی اور تاثیر بھی ہے یا نہیں۔ شعر اور ناشعر میں یہ ایک فرق ہے جسے ہمارے نقاد حضرات بھی بالعموم نظر انداز کردیتے ہیں ،یا تو وہ اس کی اہلیت ہی نہیں رکھتے یا وہ تعریف و توصیف کرتے ہوئے کسی مصلحت کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ شعر تو ساری کسی ساری طلسم کاری ہوتا ہے اور یہ طلسم ہر طرح کے نقاد کو نظر بھی نہیں آتا۔
بزرگوار مجید نظامی کہا کرتے ہیں کہ کالم وہی ہوتا ہے جو کسی موضوع کے بغیر ہو اور پھر بھی کالم بن جائے۔ یہی بات ایک اعلیٰ درجے کے شعر پر بھی صادق آسکتی ہے کہ بات بظاہر کچھ بھی نہ ہو اور شعر بن جائے اور اصل فرق بھی شعر کے بننے اور نہ بننے کا ہے۔ شعر کو خاص طور پر بنانا پڑتا بھی نہیں ، قسمت یاوری کرے تو شعر اپنے آپ بھی بن جاتا ہے حتیٰ کہ شاعر خود حیران ہوکر رہ جاتا ہے کہ یہ کیا ہوگیا ہے ! حتیٰ کہ بعض اوقات ایک شعر ہی چھپر پھاڑ کر دینے کے مترادف ہوتا ہے اور شاعر خود اس شعر کی سرشاری سے ایک عرصے تک نہیں نکل پاتا۔
میرا معمول ہے کہ میں کوئی عمدہ شعر کہیں پڑھتا یا سنتا ہوں تو میری خواہش بلکہ مجبوری یہ ہوتی ہے کہ میں اسے دوسروں کے ساتھ بھی شیئر کروں کہ اچھا شعر میرے نزدیک صدقہ جاریہ ہے اور اس کا فیض ہمیشہ جاری و ساری رہتا ہے ۔ایسا شعر خود آپ کو بھی شعر کہنے پر اکساتا اور انسپائر کرتا ہے۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ یہ شعر کس کا ہے ،کسی نئے شاعر کا ہے یا پرانے کا ،میرے کسی دوست کا ہے یا مخالف کا ،کیونکہ میں ماشاء اللہ مخالفین کے حوالے سے بھی خودکفیل واقع ہوا ہوں اور اس پر خوش بھی ہوں کہ بعض لوگوں کا تو مخالفین کے حوالے سے بھی ہاتھ تنگ ہوتا ہے!
بعض اوقات موبائل فون سے بھی عمدہ اشعار دستیاب ہوجاتے ہیں وہ میرے لیے مخصوص ہوتے بھی نہیں یعنی یاران نکتہ داں کے لیے ایک طرح کی صلائے عام کا درجہ رکھتے ہیں۔ کسی کے نیچے نام اور فون نمبر پر موجود ہوتے ہیں اور کسی پر صرف فون نمبر۔مجھے آج ہی موبائل پر ایک ایسا شعر موصول ہوا ہے جو اس کالم کے '' شان نزول ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس کے نیچے صرف م ش عالم کے نام سے شاعر کا پتہ چلتا ہے لیکن اس شعر نے میرے ساتھ جو کچھ کردیا ہے میں چاہتا ہوں کہ تھوڑی بہت واردات یہ آپ کے ساتھ بھی کرگزرے ، شعر یہ تھا ؎
اپنا سب کچھ سمجھ لیا ہے انہیں
ہمیں کچھ بھی نہیں سمجھتے جو
میں اس شعر کی خوبیاں گنوانے کی کوشش نہیں کروں گا کیونکہ یہ کام مجھے آتا بھی نہیں ہے اور پھر اس میں ایک ایسی سیدھی سی بات ایک ایسے ہی سیدھے طریقے سے کہہ دی گئی ہے کہ اس پر کسی تشریحی رائے زنی کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے یہ شعر آپ کے ساتھ کچھ بھی نہ کرے لیکن جو میرا کام تھا اور جس کے لیے میں طبعاً مجبور تھا میں نے کردیا۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اس شعر کے خالق کی نظر سے اگر یہ کالم گزرے تو براہ کرم اپنا پورا تعارف کرائیں اور اپنا کچھ منتخب کلام بھی مجھے بھجوائیں ۔ہوسکتا ہے ان کے پاس کچھ حیران کن چیزیں اور بھی ہوں تاکہ ان سے بھی لطف اندوز ہوا جاسکے !
آج کا مطلع
کوئی عیش ، کوئی نشاط اب میرے نام کا نہیں رہ گیا
اُسے مجھ سے کام ہے اور میں کسی کام کا نہیں رہ گیا