آج کل کراچی میں ہوں اور شب و روز خوبصورت شاعروں کے نرغے میں ۔سید شوکت عابد بے مثال شاعر ثروت حسین(مرحوم) کے بھائی ہیں۔پہلا مجموعہ کلام زیر ترتیب ہے جو مکتبہ شہرزاد سے شائع ہو گا۔ان کی تازہ غزلوں میں سے کچھ اشعار پیش کر رہا ہوں:
اک اضطراب جو دل میں بہت بڑھا ہوا ہے
کئی دنوں سے یہ دریائے دل چڑھا ہوا ہے
نواح شہر میں ہر سو ہے ایک سناٹا
دیار دل میں مگر شور سا مچا ہوا ہے
یہ شہر شہر نگاراں ہے اس کے ہر گھر کا
ہر ایک فرد کئی بار کا کٹا ہوا ہے
اجڑ رہا ہے تو زخموں سے چور چور ہوں میں
یہ باغ جیسے مرے ہاتھ کا لگا ہوا ہے
ستارہ بن کے سر آسمان دمکے گا
وہ حرف سا جو زباں سے مری ادا ہوا ہے
ادھر سے گزر ی تھی موج بہارِ دامنِ یار
سو شاخ دل پہ گل تازہ اک کھلا ہوا ہے
قدم سنبھال کے رکھتے ہیں اہل دل عابد
کہ دام دہر ہر اک سمت ہی بچھا ہوا ہے
ملال سے نہ مسرت سے میں یہاں آیا
بس اک تجسس و حیرت سے میں یہاں آیا
یہ جان کر کہ ہے بے سود حجت و تکرار
جھکائے سر کو شرافت سے میں یہاں آیا
کروں گا کوچ بھی اب اس کے ہی اشارے پر
وہ جس کے اذن و اجازت سے میں یہاں آیا
بتائوں کیا کہ کتنا مختلف ہے
وہ سارے کا ہی سارا مختلف ہے
تمنا اک الگ ہے میرے دل میں
سو اظہار تمنا مختلف ہے
نہیں رکنا یہاں پر ایک پل بھی
ٹھہرنے کی مری جا مختلف ہے
الگ ہے میرا گلشن اور بیاباں
مرا صحرا و دریا مختلف ہے
غرض مجھ کو نہیں کچھ شاعری سے
مرے ذمے فریضہ مختلف ہے
ہوئی ہے اگر ابتدا مختلف
نہ کیوں ہو مری انتہا مختلف
کئی راستے تھے مرے سامنے
چُنا میں نے اک راستہ مختلف
میں سمتِ مخالف سے آیا جہاں
بنانی تھی مجھ کو جگہ مختلف
سنانا ہے اک نغمہ دل مجھے
لگانی ہے مجھ کو صدا مختلف
صلہ مختلف مجھ کو ملنا ہے جب
ملے کیوں نہ آخر سزا مختلف
ہوا میرے دل پر اثر مختلف
پڑی مجھ پہ اس کی نظر مختلف
سفر اور ہے ہم سفر اور ہیں
ملی ہے مجھے رہ گزر مختلف
نہیں مجھ کو لٹنے لٹانے کا غم
کہ ہیں مرے خوف و خطر مختلف
الگ کیوں نہ ہو پھر بیاباں مرا
ہے جب میرا سووائے سر مختلف
حقیقت یہی ہے‘ نہ سنتا کوئی
میں کرتا نہیں بات اگر مختلف
اثر آفرینی تبھی آئے گی
سخن ہو گا جب مختصر،مختلف
نہیں جو لگا ہے ذرا مختلف ہے
ہے اوروں سے بے انتہا مختلف
چمن میں جدھر سے بھی آیا ہے وہ
چلی ہے ادھر سے ہوا مختلف
خریدار ہوں میں نئے ذوق کا
ذرا مال مجھ کو دکھا مختلف
مٹا کر نقش سارا اک نیا منظر بنایا ہے
جو میرے دل کے اندر تھا اسے باہر بنایا ہے
نئی ترمیم کی ہے اک مکان دل کے نقشے میں
جہاں دیوار تھی پہلے‘وہاں اب در بنایا ہے
کیا ہے میں نے پسپائی سے اپنا حوصلہ تازہ
شکستیں جمع کر کے فتح کا لشکر بنایا ہے
زمیں بہت آسماں بہت ہے
ہمیں تو دل کا مکاں بہت ہے
نہیں قرار اس کو لمحہ بھر بھی
یہ دل کا دریا رواں بہت ہے
بتا نہ پائوں کہ درد میرا
کہاں ہے کم اور کہاں بہت ہے
یہ شہر تو جل چکا ہے سارا
سو اٹھ یہاں سے دھواں بہت ہے
نہ لرزے مکین و مکاں اس طرح سے
نہ روٹھا کبھی آسماں اس طرح سے
نہ اجڑا کبھی منظرِ خاک ایسا
نہ بکھری کبھی کہکشاں اس طرح سے
نہ تھا شہر دانائی ویراں کبھی یوں
نہ تھی بند دل کی دکاں اس طرح سے
سمجھ کر بھی پوری سمجھ میں نہ آئے
سنائی گئی داستاں اس طرح سے
ہوا جتنے صبر و تحمل سے عابد
نہ ہو گا کوئی رائیگاں اس طرح سے
آج کا مطلع
زمیں پہ ایڑی رگڑ کے پانی نکالتا ہوں
میں تشنگی کے نئے معانی نکالتا ہوں