جمہوریت کی وجہ سے پاکستان کے
وقار میں اضافہ ہوا... نواز شریف
وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''جمہوریت کی وجہ سے پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوا‘‘اور اس کے ساتھ ہی کچھ شرفاء کے وقاراورکاروبار میں بھی خوب اضافہ ہوا اور جمہوریت کے انہی فضائل کی وجہ سے دن رات اس کی تعریف و توصیف میں لگے رہتے ہیں کیونکہ سیاست سے بڑھ کرکوئی بزنس اس ملک میں ہے ہی نہیں جس میں سرمایہ کاری توکرنی پڑتی ہے لیکن منافع کا کوئی شمار نہیں ہے جبکہ سرمایہ کاری بھی اسی سیاست کی کمائی ہی سے کی جاتی ہے اور پیسے کمانے کی یہ مشین پورے زور و شور سے چل پڑتی ہے اورکہیں رکنے تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''حکومت میں آنے کے بعدکراچی میں آپریشن کا فیصلہ کر لیا تھا‘‘ جبکہ دیگرکئی اہم اور مفید فیصلے حکومت میں آنے سے پہلے ہی کر لیے گئے تھے اور حکومت میں آتے ہی سب سے پہلے ان ملکوں کا دورہ کیا تھا جن سے ملک کے لیے معاشی تعاون حاصل کیا جاسکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستانیوں نے جمہوریت کے استحکام کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں‘‘ جس کے جملہ ثمرات وہی چند لوگ جھولیاں بھر بھرکے سمیٹ رہے ہیں جن پراللہ تعالیٰ کا پورا پورا فضل ہے، اس لیے ان حالات میں بندہ بشرکس قابل ہے اورکیا ہو سکتا ہے۔آپ اگلے روز ہیگ کانفرنس کے موقع پر اپنے خیالات کا اظہارکر رہے تھے۔
پاکستان کا مستقبل تابناک ہے، سیاست میں آنے کا سوچ رہا ہوں... افتخار چودھری
سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ ''پاکستان کا مستقبل تابناک ہے، سیاست میں آنے کا سوچ رہا ہوں‘‘ جبکہ اس کا مجھے کافی تجربہ بھی حاصل ہے کیونکہ میرے زیادہ تر فیصلے سیاسی ہی ہوا کرتے تھے کیونکہ سیاست کا سارا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھاکر حکومت اور سیاستدان کو آرام کرنے کا موقع دیناچاہتا تھا جن میں سے وکلاء سمیت زیادہ تر لوگ میری بحالی کی تحریک کے دوران تھک کر نڈھال ہو چکے تھے اور جونہی مجھے معلوم ہوا کہ پاکستان کا مستقبل تابناک ہے تو مجھے فکر مندی لاحق ہوئی اور میں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کر لیاکہ میری خدمات کے بغیراس کے مستقبل کو تابناک ہونے کا کیا حق حاصل ہے ؛ اگرچہ جنرل مشرف بھی اسی جذبۂ خیر سگالی سے واپس آئے تھے لیکن وہ مقدمات کے رولے گولے میں پھنس گئے ورنہ مجھے ان تکلفات میں پڑنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔انہوں نے کہا کہ ''کرپشن بہت زیادہ ہے، مایوس نہ ہوں‘‘ کیونکہ یہ ملک کرپشن ہی کی گود میں پل کرجوان ہوا ہے اور میں نے بھی اسی لیے ماتحت عدلیہ کی کرپشن پر آنکھیں بندکیے رکھیں کیونکہ آنکھوں پر اتنا بوجھ بھی نہیں ڈالنا چاہیے۔ آپ اگلے روزکہوٹہ میں میڈیا سے گفتگوکر رہے تھے۔
تھر میں بچوں کی ہلاکتیں، حکومت
یاکسی افسر کی کوتاہی نہیں۔۔۔ قائم علی شاہ
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ ''تھر میں بچوں کی ہلاکتیں حکومت یا کسی افسرکی کوئی کوتاہی نہیں‘‘ بلکہ یہ تو ہماری کارگزاری میں شمار ہونا چاہیے کیونکہ خدا کی قدرت سے وہاں پر غربت اتنی زیادہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو پال ہی نہیں سکتے جو ان پر ناقابل برداشت بوجھ بنے ہوئے تھے جو ہماری کوششوں سے کافی ہلکا ہوگیا ہے جبکہ گوداموں میں ہزاروں بوری گندم موجود تھی جو اسی جذبہ ترحم کے پیش نظر تقسیم نہیںکی گئی اور اس کے ذمہ دارفرض شناس افسروں کو ایوارڈ دینے کا بھی سوچا جا رہا ہے جبکہ میں اس خدمت کو ہی بہت بڑا ایوارڈ سمجھتا ہوں اور ایسی عاجزانہ کوششیںآئندہ بھی جاری رکھوںگا۔انہوں نے کہاکہ'' گندم کی نقل و حمل میںکچھ تاخیر ہوئی‘‘ اوراس کا نیک مقصد بھی''دیر آید درست آید‘‘ کے مقولے کو سچ ثابت کرنا تھا جس میں انشاء اللہ ہمیں خاطر خواہ کامیابی ہوئی یعنی ع
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزراء اور شادیاں
ایک اخباری اطلاع کے مطابق کچھ وزراء نے دو دو شادیاںکر رکھی ہیں، ایک بیوی پارلیمنٹ لاجزمیں اور دوسری منسٹرزکالونی میں رکھی ہوئی ہے۔ اندھے سے کسی نے پوچھا، حافظ جی، حلوہ کھائوگے؟تو حافظ جی بولے کہ اگر حلوہ نہیں کھانا تواندھے کیاجھک مارنے کے لیے ہوئے ہیں؟ چنانچہ اگر ایک وزیرکے پاس دو قلمدان ہو سکتے ہیں تو دو بیویاںکیوں نہیں۔کئی وزارائے کرام تو ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے دوسری شادی کا جواز پیداکرنے کے لیے ایک عدد اضافی قلمدان سنبھال رکھا ہوگا حالانکہ یہ بڑے دل گردے کا کام ہے۔ ایران میں ایک دفعہ تعدد ازدواج کے معاملے پر بحث ہو رہی تھی کہ ایک نے کہا کہ بیویاں چار ہونی چاہئیں تاکہ دینی جوازکافائدہ بھی اٹھایا جا سکے،کسی نے تین بیویوں کے حق میں رائے دی،کسی نے دواورکسی نے ایک کے حوالے سے جبکہ ایک بولے کہ'' یک ہم زیادہ است‘‘ یعنی ایک بھی زیادہ ہے؟
عقیل عباس جعفری
ہر بام ہے خراب، ہر اک در خراب تر
لگتا نہیں ہے پھر بھی مجھے گھر خراب تر
اٹھا نا تھا ابتدا میں فقط اک قدم غلط
سارا سفر ہوا ہے برابر خراب تر
کیسے ہیں کم نصیب مرے ہم سفر جنہیں
لگتا ہے ہر خراب سے بہتر خراب تر
کیا نام لوں کہ باغ کے کچھ پہرے دار تھے
جو کر گئے ہیں باغ کا منظر خراب تر
کچھ لوگ خواب بیچنے آئے ہیں شہر میں
وہ خواب، جو نکل چکے اکثر خراب تر
ملنا اگر ہے مجھ سے تو یہ سوچ کر ملو
باہر سے میں خراب ہوں، اندر خراب تر
پہلے بھی میں خراب تھا، بے حد خراب تھا
لیکن ہوا ہوں آپ سے ملک کر خراب تر
سمجھو کہ اپنی شکل ہی کا کچھ قصور ہے
لگتا ہو آئینہ جو مکدر، خراب تر
تعمیرِ بام و در یونہی کرتے رہو، عقیلؔ
بہتر بھی ہو ہی جائے گا یک سر خراب تر
رشید اثرؔ
کارِ ہستی نے ذرا سی مجھے فرصت نہیں دی
خواب تصویر کروں، اتنی بھی مہلت نہیں دی
زیست نے اپنے خسارے کا بہانہ کر کے
مجھ سے جو کام لیا، اس کی بھی اجرت نہیں دی
میری آنکھوں نے اسے چھو کے کیا حشر تمام
اس نے جب ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں دی
اس سے کیا رشتہ ہے میرا کہ اثرؔ میں نے اسے
ہجر ہونے نہ دیا، وصل کی زحمت نہیں دی
آج کا مقطع
موجِ ہوس اُبھر کر وہیں رہ گئی، ظفرؔ
دیوارِ دوستی تھی مرے اُس کے درمیاں